تراویح کے معنی:بخاری شریف کی مشہور ومعروف شرح لکھنےوالے حافظ ابن حجر العسقلانی ؒ نے تحریر کیا ہے کہ تراویح، ترویحہ کی جمع ہے اور ترویحہ کے معنی: ایک دفعہ آرام کرنا ہے، جیسے تسلیمہ کے معنی ایک دفعہ سلام پھیرنا۔ رمضان المبارک کی راتوں میں نمازِ عشاء کے بعد باجماعت نماز کو تراویح کہا جاتا ہے، کیونکہ صحابہٴ کرام کا اتفاق اس امر پر ہوگیا کہ ہر دوسلاموں )یعنی چار رکعت ( کے بعد کچھ دیر آرام فرماتے تھے ۔)فتح الباری شرح صحیح البخاری، کتاب صلاة التراویح(نماز تراویح کی فضیلت:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا : جو شخص رمضان)کی راتوں( میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے )عبادت کے لیے( کھڑا ہو ، اس کے پچھلے تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ )بخاری ومسلم( ثواب کی امید رکھنے کا مطلب یہ ہےکہ شہرت اور دکھاوے کے لیے نہیں؛ بلکہ خالص اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے عبادت کی جائے۔نماز تراویح کی تعدادِ رکعت:تراویح کی تعداد ِرکعت کے سلسلہ میں علماء کرام کے درمیان اختلاف ہے۔ تراویح پڑھنے کیاگرچہ بہت فضیلت احادیث میں وارد ہوئی ہے؛ لیکن فرض نہ ہونے کی وجہ سے تراویح کی تعدادِ رکعت میں یقینا گنجائش ہے۔ جمہور محدثین اورفقہاء کی رائے ہے کہ تراویح ۲۰رکعتپڑھنی چاہئیں۔ تراویح کی تعداد ِرکعت میں علماء کرام کے درمیان اختلاف کی اصل بنیاد یہ ہے کہ تراویح اور تہجد ایک نماز ہے یا دو الگ الگ نمازیں۔ جمہور محدثین،فقہائے کرام نے اِن دونوں نمازوں کو الگ الگ نماز قرار دیا ہے، اُن کےنقطہٴ نظر میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کا تعلق تہجد کی نماز سے ہے، جس میں انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ا رمضان اور رمضان کے علاوہ گیارہ رکعت سے زائد نماز نہیں پڑھتے تھے۔ جس کے انہوں نے مختلف دلائل دیے ہیں، جن میں سے بعض یہ ہیں:)۱( امام بخاری ؒ نے اپنی مشہور کتاب )بخاری( میں نمازِ تہجد کا ذکر )کتاب التہجد( میں؛ جبکہ نماز تراویح کو )کتاب صلاة التراویح( میں ذکر کیا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا کہ دونوں نمازیں الگ الگ ہیں، جیساکہ جمہور علماء اور ائمہٴ اربعہ نے فرمایا ہے، اگر دونوں ایک ہی نمازہوتی تو امام بخاری ؒ کو دو الگ الگ باب باندھنے کی کیوں ضرورت محسوس ہوتی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا والی حدیث کتاب التہجد میں ذکر فرماکر امام بخاریؒ نے ثابت کردیا کہ اس حدیث کا تعلق تہجد کی نماز سے ہے۔)۲( تراویح صرف رمضان میں پڑھی جاتی ہے، اور اِس حدیث میں ایسی نماز کا ذکر ہے جو رمضان کے علاوہ بھی پڑھی جاتی ہے۔)۳( اگر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے فرمان کا تعلق تراویح کی نماز سے ہے تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جب باضابطہ جماعت کے ساتھ ۲۰ رکعت تراویح کا اہتمام ہوا تو کسی بھی صحابی نے اِس پر کوئی تنقید کیوں نہیں کی؟ )دنیا کی کسی کتاب میں ، کسی زبان میں بھی، کسی ایک صحابی کا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ۲۰رکعت تراویح کے شروع ہونے پر کوئی اعتراض مذکور نہیں ہے( اگر ایسی واضح حدیث تراویح کی تعداد کے متعلق ہوتی تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم کو کیسے ہمت ہوتی کہ وہ ۸رکعت تراویح کی جگہ ۲۰ رکعت تراویح شروع کردیتے۔ صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم تو ایک ذرا سی چیز میں بھی آپ ا کی تعلیمات کی مخالفت برداشت نہیں کرتے تھے۔ اور نبی اکرم ا کی سنتوں پر عمل کرنے کا جذبہ یقینا صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم میں ہم سے بہت زیادہ تھا؛ بلکہ ہم )یعنی آج کے مسلمان( صحابہ کی سنتو ں پر عمل کرنے کے جذبہ سےاپنا کوئی مقارنہ بھی نہیں کرسکتے۔ نیز نبی اکرم ا کا فرمان ہے : ہم خلفاء راشدین کی سنتوںکوبھی مضبوطی سے پکڑلیں۔ )ابن ماجہ()۴( اگر اس حدیث کا تعلق واقعی تراویح کی نمازسے ہے )اور تہجد و تراویح ایک نماز ہے( تو رمضان کے آخری عشرہ میں نمازِ تراویح پڑھنے کے بعد تہجد کی نماز کیوں پڑھیجاتی ہے؟)۵( اس حدیث کا تعلق تہجد کی نماز سے ہے، جیساکہ محدثین نے اس حدیث کو تہجد کے باب میں نقل کیا ہے، نہ کہ تراویح کے باب میں۔ )ملاحظہ ہو : مسلم ج۱ ص ۱۵۴، ابوداوٴد ج۱ ص ۱۹۶، ترمذی ج۱ ص ۵۸، نسائی ج۱ ص ۱۵۴، موٴطا امام مالک ص ۴۲( ۔علامہ شمس الدین کرمانی ؒ)شارح بخاری( تحریر فرماتے ہیں کہ یہ حدیث تہجد کے بارے میں ہے اور حضرت ابوسلمہ ؒ کا مذکورہ بالا سوال اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا جواب تہجد کے متعلق تھا۔ )الکوکب الدراری شرح صحیح البخاری ج ۱ ص ۱۵۵۔۱۵۶(حضرت شاہ عبد الحق محدث دہلوی ؒ فرماتے ہیں کہ صحیح یہ ہے کہ حضور اکرم ا گیارہ رکعت)وتر کے ساتھ( پڑھتے تھے وہ تہجد کی نماز تھی۔حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی ؒ تحریر فرماتے ہیں کہ یہ حدیث تہجد کی نماز پر محمول ہے جو رمضان اور غیر رمضان میں برابر تھی۔ )مجموعہ فتاوی عزیزی ص ۱۲۵(نمازِ تراویح نبی اکرم ا کے زمانے میں:حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ انے )رمضان کی( ایک رات مسجد میں نماز تراویح پڑھی۔ لوگوں نے آپ اکے ساتھ نماز پڑھی۔ پھر دوسری رات کی نماز میں شرکاء زیادہ ہوگئے، تیسری یا چوتھی رات آپا نماز تراویح کے لیے مسجد میں تشریف نہ لائے اور صبح کو فرمایا کہ میں نے تمہارا شوق دیکھ لیا اور میں اس ڈر سے نہیں آیا کہ کہیں یہ نماز تم پر رمضان میں فرض نہ کردی جائے۔ )مسلم ، الترغیب فی صلاة التراویح(․․․․․․اِن دو یا تین رات کی تراویح کی رکعت کے متعلق کوئی تعداد احادیثِ صحیحہ میں مذکور نہیں ہے۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسولاللہ ا قیام رمضان کی ترغیب تو دیتے تھے؛ لیکن وجوب کا حکم نہیں دیتے۔ آپ ا فرماتے کہ جوشخص رمضان کی راتوں میں نماز )تراویح( پڑھے اور وہ ایمان کے دوسرے تقاضوں کو بھی پورا کرے اور ثواب کی نیت سے یہ عمل کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے سابقہ گناہ معاف فرمادیں گے۔ رسول اللہ ا کی وفات تک یہی عمل رہا، دورِ صدیقی اور ابتداء عہد فاروقی میں بھی یہی عمل رہا۔ )مسلم ۔ الترغیب فی صلاة التراویح(صحیح مسلم کی اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نبی اکرم ا کی حیات میں ، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہکے دورِ خلافت اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دور خلافت میں نماز تراویح جماعت سے پڑھنے کا کوئی اہتمام نہیں تھا، صرف ترغیب دی جاتی تھی؛ البتہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں یقینا تبدیلی ہوئی ہے، اس تبدیلی کی وضاحت مضمون میں محدثین اورفقہائے کرام کی تحریروں کی روشنی میں آرہی ہے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت )جس میں انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ا رمضان اور رمضان کے علاوہ گیارہ رکعت سے زائد نماز نہیں پڑھتے تھے( میں لفظ ِتراویح کا ذکر نہیں ہے۔ لہٰذا اس حدیث کا تعلق تہجد کی نماز سے ہے؛ کیونکہ محدثین نے اس حدیث کو تہجد کے باب میں نقل کیا ہے، نہ کہ تراویح کے باب میں۔ )ملاحظہ ہو : مسلم ج۱ ص ۱۵۴، ابوداوٴد ج۱ ص ۱۹۶، ترمذی ج۱ ص۵۸، نسائی ج۱ ص ۱۵۴، موٴطا امام مالک ص ۴۲( اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان محدثین کے نزدیک یہ حدیث تہجد کی نماز سے متعلق ہے نہ کہ تراویح سے۔امام محمد بن نضر مروزی ؒ نے اپنے مشہور کتاب)قیام اللیل ، ص ۹۱ اور ۹۲( میں قیام رمضان کا بابباندھ کر بہت سی حدیثیں اور روایتیں نقل فرمائی ہیں؛ مگر مذکورہ بالا حدیث ِعائشہ نقل نہیں فرمائی؛ اس لیے کہ ان کے نزدیک یہ حدیث تراویح کے متعلق ہے ہی نہیں۔علامہ ابن قیم ؒ نے اپنی مشہور ومعروف کتاب )زاد المعاد ص ۸۶( میں قیام اللیل )تہجد( کے بیان میں یہ حدیث نقل فرمائی ہے۔ علاوہ ازیں اس روایت کے متعلق حافظ حدیث امام قرطبی ؒ کا یہ قول بھی نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے کہ بہت سے اہل علم حضرات اس روایت کو مضطرب مانتے ہیں۔ )عینی شرح بخاری ج۷ ص ۱۸۷(نمازِ تراویح خلفاء راشدین کے زمانے میں:حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہد میںکتنی تراویح پڑھی جاتی تھیں، احادیث صحیحہ میں صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم کا کوئی واضح عمل مذکور نہیں ہے۔ گویا اس دور کا معمول حسب سابق رہا اور لوگ اپنے طور پر نماز تراویح پڑھتے رہے، غرضے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت)یعنی دو رمضان( میں نماز تراویح باقاعدہ جماعتکے ساتھ ایک مرتبہ بھی ادا نہیں ہوئی ۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے جب اپنے عہد خلافت میں لوگوں کو دیکھا کہ تنہا تنہا تراویح کی نماز پڑھ رہے ہیں تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی امامت میں جمع کیا، اور عشاء کے فرائض کے بعد وتروں سے پہلے باجماعت ۲۰رکعت نماز تراویح میں قرآن کریم مکمل کرنے کا باضابطہ سلسلہ شروع کیا۔حضرت عبد الرحمن قاری ؒ فرماتے ہیں کہ میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ہمراہ رمضان میں مسجد میں گیا تو دیکھا کہ لوگ مختلف گروپوں میں علیحدہ علیحدہ نماز تراویح پڑھ رہے ہیں، کوئی اکیلا پڑھ رہا ہے اور کسی کے ساتھ کچھ اور لوگ بھی شریک ہیں، اس پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ واللہ! میرا خیال ہے کہ اگر ان سب کو ایک امامکی اقتداء میں جمع کردیا جائے تو بہت اچھا ہے اور سب کو حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں جمع کردیا ۔ ۔۔۔ حضرت عبدالرحمن فرماتے ہیں کہ پھر جب ہم دوسری رات نکلے اور دیکھا کہ سب لوگ ایک ہی امام کی اقتداء میں نماز تراویح ادا کررہے ہیں تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ بڑا اچھا طریقہ ہے اور مزید فرمایا کہ ابھیتم رات کے جس آخری حصہ )تہجد( میں سوجاتے ہو ،وہ اس )تراویح( سے بھی بہتر ہے جس کو تم نماز میں کھڑے ہوکر گزارتے ہو۔ )موٴطا امام مالک ؒ، باب ماجاء فی قیام رمضان(حضرت یزید بن رومان ؒ فرماتے ہیں کہ لوگ)صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم( حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ۲۳ رکعت )۲۰ تراویح اور۳وتر( ادا فرماتے تھے۔ )موٴطا امام مالک ؒ، باب ماجاء فی قیام رمضان، ص و