Thursday, 7 August 2014

اسلام کی حقانیت کی دلیل


1932ء میں عراق کے قصبہ ”سلمان پاک“ میں ایک ایسا روح پرور واقعہ پیش آیا جو اسلام کی حقانیت اور ہمارے اسلاف کے ایمان کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ بغداد سے 30 میل دور قصبہ سلمان پاک کی ایک پُرشکوہ عمارت میں صحابی رسول سیّدنا سلمان فارسی (رضی اللہ تعالٰی عنہ) کا مزارِ مبارک ہے اور اب اِسی مزار کے گنبد سے مُتصل رحمۃ اللعالمین (صلّی اللہ علیہ وآلہِ و سلّم) کے دو جلیل القدر صحابہ (جن سے متعدد احادیث مروی ہیں) حضرت ”حذیفہ بن الیمان“ اور حضرت ”جابر بن عبداللہ بن عمرو بن حرام الانصاري“ (رضوان اللہ علیہم اجمعین) کی قبورِ پُرنور موجود ہیں۔ لیکن یہ قبور پہلے یہاں نہیں تھیں بلکہ سلمان پاک سے تقریباً تین یا چار فرلانگ کے فاصلے پر ایک غیر آباد جگہ پر موجود تھیں جہاں زیرِ زمین پانی کے سبب حضرت حذیفہ بن الیمان نے دو مرتبہ شاہِ عراق شاہ فیصل اوّل کے خواب میں آ کر اُس سے کہا کہ ”مجھے اور جابر کو یہاں سے منتقل کر دو کیونکہ دریائے دجلہ کا پانی قبر میں رِس رہا ہے۔ “ شاہِ عراق نے مسلسل دو راتوں تک یہی خواب دیکھا مگر سمجھ نہیں پایا۔ تیسری رات حضرت حذیفہ نے مفتی اعظمِ عراق نوری السعید پاشا کے خواب میں آ کر یہی بات دہرائی اور جب مفتی صاحب نے شاہِ عراق سے اس کا ذکر کیا تو اُس نے فوراً ہی اُن سے عرض کی کہ ”آپ مزارات سے اجسادِ مبارکہ منتقل کرنے کا فتویٰ جاری کر دیجیے، میں بلا کسی تردّد عمل کروں گا۔ “ فتویٰ اور شاہی فرمان عراق کے تمام اخبارات میں شائع ہوا اور خبر رساں اداروں نے اس تاریخی خبر کو پوری دنیا میں پھیلا دیا۔ مقررہ دن یعنی 24 ذی الحجہ، 25 اپریل، پیر کے دن 1932 عیسوی میں ہزاروں (یا شاید لاکھوں) انسانوں کی موجودگی میں یہ مزارات کھولے گئے تو معلوم ہوا کہ حضرت حذیفہ بن الیمان کی قبر مبارک میں پانی آ چکا تھا اور حضرت جابر بن عبداللہ کے مزار میں نمی پیدا ہو چکی تھی۔ تمام ممالک کے سُفراء اور عراق کے اراکینِ حکومت، مذہبی رہنماؤں اور شاہِ عراق کی موجودگی میں پہلے حضرت حذیفہ کے جسدِ مبارک کو کرین کے ذریعے زمین سے اس طرح اوپر اٹھایا گیا کہ مقدس نعش کرین کے ساتھ رکھے ہوئے سٹریچر پر خود بخود آ گئی اور پھر کرین سے سٹریچر کو علیحدہ کر کے شاہ فیصل، مفتی اعظمِ عراق، وزیر مختارِ جمہوریہ تُرکی اور ولی عہدِ مصر شہزادہ فاروق نے کاندھا دیا اور یہ جسدِ مقدس بڑے احترام سے شیشے کے تابوت میں رکھ دیا گیا۔ پھر اسی طرح حضرت جابر بن عبداللہ کے جسدِ مبارک کو قبر سے نکالا گیا۔ اس تمام کاروائی کو ویڈیو کیمروں کے ذریعے فلمایا گیا اور یہ روح پرور مناظر بعد ازاں عراق کے سینما گھروں میں دکھائے گئے۔ ان واقعات کو براہِ راست دیکھنے والوں میں مُسلم اور غیرمُسلم ہر طرح کے افراد شامل تھے۔ ان مناظر کو دیکھ کر ہزاروں غیرمُسلموں نے اسلام قبول کر لیا۔ حدیث لکھنے اور روایت کرنے والے اِن عظیم المرتبت صحابہِ کرام کے چہروں، کفن اور ریش مبارک دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ جیسے انہیں رحلت فرمائے 1400 برس نہیں بلکہ صرف چند گھنٹے ہی گزرے ہیں۔ سب سے حیرت انگیز بات یہ تھی کہ دونوں صحابہِ کرام کی آنکھیں کُھلی ہوئی تھیں اور اُن میں اتنی چمک تھی کہ بہتوں نے چاہا کہ اِن آنکھوں کو دیکھ لیں مگر دیکھنے والے کی آنکھیں ایسے چندھیا جاتیں کہ ہر شخص دُور ہٹ جاتا۔ اور یقیناً وہ دیکھ بھی کیسے سکتے تھے کہ اُن آنکھوں میں میرے سرکار (صلّی اللہ علیہ و آلہِ وسلم) کو دیکھ اور اُن کی شبیہ کو محفوظ کر رکھا تھا۔ جب سینکڑوں برس بعد صحابہ کرام کے جسد خاکی قبور سے تروتازہ نکل آئے۔ 1932 میں شاہ عراق ملک فیصل اول کو خواب میں حضرت حذیفہ الیمانی رضی اللہ عنہ ، جلیل القدر صحابی نے فرمایا حضرت جابر بن عبداللہ اور مجھے موجودہ مزارات سے منتقل کرکے دریائے دجلہ سے کچھ فاصلے پر دفن کردو کیونکہ میرے مزار میں پانی اور حضرت جابر کے مزار میں نمی ہے۔ شاہ فیصل نے یہ خواب مسلسل دیکھا ،لیکن بوجہ مصروفیت امورِ مملکت کوئی خاص توجہ نہ دی ۔ تیسری شب حضرت موصوف نے مفتی اعظم عراق کو ہدایت فرمائی، ہم شاہ عراق سے دو مرتبہ کہہ چکے ہیں ہمارے مزارات یہاں سے منتقل کردو لیکن شاہ نے توجہ نہ دی، تم شاہ کو تاکید کردو وہ منتقلی مزارات کا انتظام کردے۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ ہجرت سے پندرہ سال پہلے مدنیہ میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق قبیلہ خزرج کے ایک غریب خاندان سے تھا۔ آپ کم عمری میں اسلام لائے اور بے شمار غزوات میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ساتھ دیا۔ والد کا نام عبداللہ اور والدہ کا نام نصیبہ بنت عقبہ بنت عدی تھا جو ان کے والد کے خاندان ہی سے تھیں۔ آپ کے والد حضرت عبداللہ انصاری غزوہ احد میں شہید ہوئے۔ ان کی نسل کو بنو حرام کہا جاتا ہے جو آج بھی مسجد قبلتین کے قریب رہائش رکھتے ہیں۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سات بہنوں کے اکلوتے بھائی تھے۔ بعض روایات کے مطابق ایک دفعہ وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر تھے تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اے جابر تم ایک لمبی زندگی پاؤ گے اگرچہ اندھے ہو جاؤ گے مگر تمہاری ملاقات میری اولاد میں سے ایک شخص سے ہوگی وہ میرا ہم نام ہوگا. انہوں نے چورانوے سال کی عمر پائی اور 78ھ میں وفات پائی۔ روایات کے مطابق انہیں حجاج بن یوسف نے زہر دلوایا تھا۔ انہیں بغداد کے قریب مدائن میں دریائے دجلہ کے قریب دفن کیا گیا۔ بہر حالصبح کو مفتی اعظم نوری السعید وزیراعظم عراق کے پاس تشریف گئے اور خواب بیان کیا۔ وزیراعظم مرحوم اور مفتی اعظم عراق دونوں شاہ کی خدمت میں باریاب ہوئے اور درخواست بیان کی ۔ شاہ نے بھی اس خواب کی تائید کی۔ باہمی مشورہ اور غور و فکر کے بعد طے پایا کہ مفتی اعظم مزارات کی منتقلی کا فتوی دیں اور فتوے کے ساتھ شاہی فرمان منسلک کرکے اخبارات میں اشاعت کے لیے وزیراعظم کو دے دیں۔ چناچہ اس پر فورا عمل کیا ۔اعلان تھا دس ذوالحجہ کے بعد نماز ظہر دونوں اصحاب رسول رضی اللہ عنھم کے مزارات کھول کر دونوں حضرات کو کسی مناسب جگہ دفن کیا جائے گا۔ اس اعلان کی اشاعت کے بعد تمام عالم اسلامی میں یہ خبر نہایت دلچسپی کے ساتھ پڑھی گئی۔ چونکہ حج کا زمانہ قریب تھا دنیا کے مسلمان حرمین الشریفین میں جمع تھے۔ سب نے بذریعہ تار شاہ عراق سے درخواست کی کہ مزارات ، حج کے بعد کسی قریبی تاریخ میں منتقل کیے جائیں تاکہ ہم بھی شرکت کی سعادت حاصل کرسکیں۔ اسی طرح اطرافِ عالم ہندوستان ، ترکی ، مصر ، افریقہ ، ایران ، شام اور بلغاریہ وغیرہ سے تاروں کی یلغار شروع ہوگئی اور تاریخ میں توسیع کی درخواست کی گئی۔ مسلمانانِ عالم کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے دوسرا شاہی فرمان جاری کیا گیا کہ اب یہ مبارک کام حج کے دس یوم کے بعد کیا جائے گا۔بغداد سےتقریبا 40 میل دور ایک تاریخی مقام مدائن ہے جس کو اب سلمان پاک کہتے ہیں۔ یہاں مشہور صحابی حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کا مزار بھی ہے۔اطرافِ عالم سے مسلمانان اور غیرمسلم کثیر تعداد میں بغداد پہنچ گئے۔ تمام دنیا کے اخباری نمائندے ، فوٹوگرافر ، سفیر اور مشہور سیاح، مورخ، شاہ عراق اور وزیراعظم ، مفتی اعظم ، امراء ، صلحاء اور عمائدینِ عراق دوشنبہ کو دوپہر کے وقت یہاں جمع ہوچکے تھے۔ پہلے حضرت حذیفہ الیمانی رضی اللہ عنہ کے جسدِ مبارک کو کرین کے ذریعے زمین سے اس طرح اٹھایا گیا کہ کرین پر لگے اسٹریچر پر جسدِ مبارک خودبخود آگیا۔ اس کے بعد کرین سے اسٹریچر الگ کرکے شاہ فیصل ، مفتی اعظم ، وزراء ترکی ، ولی عہد مصر شہزادہ فاروق نے کاندھوں پر اسٹریچر رکھ کر تابوت تک لائے جو شیشہ کا بنا ہوا پہلے سے تیار تھا۔ تابوت میں جسد مبارک رکھ دیا گیا۔ اسی طرح حضرت جابر بن عبداللہ کے جسدِ مبارک کو بھی مزار سے نکال کر باالاحترام بلوری تابوت میں رکھ دیا گیا۔ دونوں حضرات کے جسم بالکل تروتازہ تھے، ایسا معلوم ہوتا تھا یہ حضرات ابھی زندہ ہیں۔ آنکھیں کھلی ہوئی تھیں جن سے نوری شعاعیں نکل کر دیکھنے والوں کی آنکھیں خیرہ کررہی تھیں۔ کفن بھی بالکل تازہ تھے۔ یہ کرشمہ قدرت دیکھ کر بڑے بڑے ڈاکٹر ، سائنس دان ، انگشت بدنداں تھے۔ بین الاقوامی شہرت کا مالک ایک جرمن ماہر چشم اس کاروائی میں بڑی دلچسپی لے رہا تھا ، وہ اس قدر متاثر ہوا کہ فورا مفتی اعظم عراق کے پاس آیا اور ہاتھ پکڑ کر کہا، اسلام کی حقانیت کا اس سے بڑھ کر کیا ثبوت ہوسکتا ہے۔ میں کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوتا ہوں آپ مجھے تلقین کریں۔ لاکھوں انسانوں کے سامنے یہ ڈاکٹر مسلمان ہوگیا۔ اس کے بعد ہزاروں نصرانیوں ، یہودیوں نے جوق در جوق بغداد آکر مع اپنے خاندانی افراد اسلام قبول کیا...

یوم انہدام جنت البقیع، عالم اسلام کے لئے لمحہ فکر


جنت البقیع مدینہ منورہ میں واقع وہ قبرستان ہے کہ جس میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اجداد، اہل بیت علیھم السلام، اُمّہات المومنین، جلیل القدر اصحاب، تابعین اوردوسرے اہم افراد کی قبور ہیں کہ جنہیں آٹھ شوال 1344ہجری قمری کو آل سعود نے منہدم کر دیا اور افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ یہ سب کچھ اسلامی تعلیمات کے نام پر کیا گيا۔ یہ عالم اسلام خصوصاً شیعہ و سنی مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علماء، دانشوروں اوراہل قلم کی ذمہ داری ہے کہ اِن قبور کی تعمیرنو کیلئے ایک بین الاقوامی تحریک کی داغ بیل ڈالیں تا کہ یہ روحانی اور معنوی سرمایہ اور آثار قدیمہ سے تعلق رکھنے والے اِس عظیم نوعیت کے قبرستان کی کہ جس کی فضیلت میں روایات موجو دہیں، حفاظت اورتعمیر نو کے ساتھ یہاں مدفون ہستیوں کی خدمات کا ادنیٰ سا حق ادا کیا جا سکے۔ ٨/ شوال تایخ جہان اسلام کا وہ غم انگیز دن ہے کہ جب ١٣٤٤ ہجری کو وہابی فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد نے جنت البقیع کے تاریخی قبرستان کومنہدم و مسمارکر دیا تھا۔یہ دن تاریخ اسلام میں ''یوم الہدم ''کے نام سے معروف ہے ،یعنی وہ دن کہ جب بقیع نامی تاریخی اور اسلامی شخصیات کے مدفن اور مزاروں کو ڈھا کر اُسے خا ک کے ساتھ یکساں کر دیا گیا۔ مؤرخین کے مطابق بقیع وہ زمین ہے کہ جس میں رسول اکرم (ص) کے بعد اُن کے بہترین صحابہ کرام دفن ہوئے اورجیسا کہ نقل کیا گیا ہے کہ یہاں دس ہزار سے زیاد اصحاب رسول مدفون ہیں کہ جن میں اُن کے اہل بیت، اُمّہات المومنین، فرزند ابراہیم، چچا عباس ، پھوپھی صفیہ بنت عبدالمطّلب، آنحضرت کے نواسے امام حسن علیہ السلام، اکابرین اُمت اور تابعین شامل ہیں۔ یوں تاریخ کے ساتھ ساتھ بقیع کا شمار شہر مدینہ کے اُن مزاروں میں ہونے لگا کہ جہاں حجاج بیت اللہ الحرام اور رسول اللہ (ص) کے روضہ مبارکہ کی زیارت اور وہاں نماز ادا کرنے والے زائرین اپنی زیارت کے فوراً بعد حاضری دینے کی تڑپ رکھتے تھے۔ نقل کیا گیا ہے کہ آنحضرت) ص( نے وہاں کی زیارت کی اور وہاں مدفون افراد پر سلام کیا اور استغفار کی دعا کی۔ تین ناموں کی شہرت رکھنے والے اِس قبرستان ''بقیع، بقیع الغرقد یا جنت البقیع'' کی تاریخ، قبل از اسلام زمانے سے مربوط ہے لیکن تاریخی کتابیں اِس قبرستان کی تاریخ پر روشنی ڈالنے سے قاصر ہیں لیکن اِس سب کے باوجود جو چیز مسلّم حیثیت رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ بقیع، ہجرت کے بعدشہر مدینہ کے مسلمانوں کیلئے دفن ہونے کا واحد قبرستان تھا۔ شہر مدینہ کے لوگ وہاں مسلمانوں کی آمد سے قبل اپنے مردوں کو دو قبرستانوں''بنی حرام'' اور ''بنی سالم'' میں دفن کیا کرتے تھے۔ جنت البقیع ٤٩٥ ہجری یعنی پانچویں صدی ہجری کے اواخر سے صاحب ِگنبد و بارگاہ تھا۔ حجاز میں شریفِ مکہ کی شکست کے بعد محمد بن عبدالوہاب کے پیروکاروں نے مقدس ہستیوں کی قبریں مسمار کر دیں تو عالم اسلام میں بےچینی پھیل گئی۔ جب وہابیوں کا مکہ اور مدینہ پر قبضہ ہو گیا تو انھوں نے دین کی تجارت شروع کی اور مسلم دنیا کے بڑے علماءجو حج کے لئے آتے، ان کے توحیدخالص کی دکان سے استفادہ کرتے اور ان کی فقہ کا سودا مفت اپنے وطن لے جا تے۔ وھابیت اور آل سعود کے پروگراموں میں سے ایک پروگرام یہ بھی ہے کہ تمام دنیا اور اسلامی ممالک کے خائن اور ایجنٹ مولفین کے قلم کو ریالوں اور ڈالروں کے بدلے خرید لیا جائے۔اسی طرح انہوں نے حج کے موقع کا خاص فائدہ اٹھایا جبکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے ساتھ عظیم مسلم علماء بھی فریضہ حج کی ادائیگی کے لئے مکہ میں جمع ہوتے ہیں۔ اس موقع پر یہ لوگ ان علماء سے روابط پیدا کر کے ان کو ہر ممکن طریقے سے اپنا ہمنوا بناتے ہیں اور ان کے ذریعے سے اپنا نصاب ساری دنیا میں مشہور کرتے ہیں۔ جب ایک مفتی اپنا عقیدہ تبدیل کرتا ہے تو اس کے ذیلی علماء بھی اس کی تقلید کرتے ہیں۔اسطرح یہ مسلک ساری اسلامی دنیا میں عام ہو گیا ۔ایک مفتی کا عقیدہ تبدیل کر کے اس کے زیر اثر سارے علاقے کے لو گوں کے عقیدے تبدیل کرنا آسان ہو جاتا ہے اور آل سعود نے یہی ٹیکنیک اپنا رکھی ہے۔ آل سعود اسلامی امت کے الٰہی مقدسات کی توہین ان کے عقائد کی تضعیف نیز مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے کی غرض سے اس باطل فرقہ کو اسلامی ممالک میں پھیلانے کی مذموم کوشش کر رہی ہے ، اور اس باطل فرقہ کا مقصد مسلمانوں میں پھوٹ ڈال کر اسلامی عقائد کی بیخ کنی اور استعماری طاقتوں کے ناپاک عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچانا ہے ۔ یہ عالم اسلام کی چودہ سوسالہ تاریخ کا ایک مختصر سا ورق ہے کہ جو تاریخی اسناد و دستاویزات کی روشنی میں آل سعود اور فرقہ وہابیت کے سیاہ کارناموں کی ایک زندہ اور حقیقی مثال ہے اوردورِ حاضر کا مسمار قبرستان بقیع آج کے مسلمانوں سے اِس بات کاسوال رہا ہے کہ وہ اِس تاریخی بے حرمتی پر خاموش کیوں ہیں؟

تاریخی شہر مکہ اورحضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جائےپیدائش کےانہدام کا ناپاک منصوبہ


(ایک مخصوص گروہ کا سازشی منصوبہ جسےلندن کےانگریزی اخبار ڈیلی انڈیپینڈینٹ نےبےنقاب کیا) مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کو اسلامی تاریخ میں ایک اہم حیثیت حاصل ہےجب اسلام کی تاریخ رقم کی جائےگی تو کوئی بھی مؤرخ ان دوشہروں کےتذکرےکےبغیر اپنا مضمون مکمل نہیں کریگا۔ مکہ معظمہ جہاں کعبۃ اللہ (اللہ کا گھر ) ہےجبکہ مدینہ منورہ جہاں سرکاردوعالم حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا روضہ مبارک ہےاس لحاظ سےان دو شہروں کی نسبت لازم و ملزوم کی سی ہے۔ مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کی تاریخ اس قدر پرانی ہےجتنی کہ اسلام اور مسلمانوں کی۔ کعبۃ اللہ کی اولین تعمیر کا شرف حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حاصل ہوا بعد ازاں مختلف ادوار میں اسکی تعمیر نو ہوتی رہی اور آج کعبۃ اللہ کا منظر اور جغرافیائی نقشہ یکساں طورپر مختلف ہو چکا ہے۔ اس طرح مدینہ منورہ، مسجد نبوی اور حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےروضہ مبارک کی تعمیر نو سےاولین مسجد نبوی کا منظر بدل چکا ہےیہی نہیں بلکہ مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کےگردونواح کا منظر بھی یکساں تبدیل ہو چکا ہے۔ مکہ و مدینہ کی بڑھتی ہوئی آبادی اور ہر سال حجاج کرام کی تعداد میں اضافےکےباعث ان دو شہروں میں نئی عمارتوں کےپہاڑ کھڑےنظر آتےہیں۔بالخصوص گزشتہ 2 دہائیوں سےان دونوں شہروں میں نمایاں تبدیلیاں آئی ہیں۔ امریکی ادارے”واشنگٹن گلف انسٹی ٹیوٹ “ کی طرف سےجاری کردہ ایک رپورٹ کےمطابق1980 سےلیکر ابتک مکہ معظمہ کی 95% پرانی عمارتیں منہدم، تبدیل یا پھر ختم ہو کر رہ گئی ہیں۔ ان دونوں شہروں کےاردگرد عمارتوں کی تعمیر، حجاج کی رہائش گاہوں کیلئےبلندوبالا بلڈنگز کی تعمیر کا منصوبہ تیزی سےپھیل رہا ہےجس نےان شہروں کی تاریخی حیثیت اور تشخص کو قدرےدھندلا دیا ہے۔ رفتہ رفتہ مکہ اور مدینہ منورہ کا انفرادی تشخص ختم کرنیکی کوشش ایک سازش کےتحت جاری ہےجسےایک مخصوص طبقہ فکر کر رہا ہےمخصوص مسلک کےلوگ جو بظاہر سعودی عرب حکومت کا بھی اہم جزو ہیں ان تاریخی عمارتوں کی تعمیر نو کا ناپاک منصوبہ رکھتےہیں۔ اس حوالےسےگزشتہ دنوں 6 اگست کولندن سےشائع ہونیوالےانگریزی اخبار ڈیلی انڈیپینڈنٹ کےصفحہ اول پر چشم کشا حقائق شائع ہوئےہیں جن کےمطابق ” مکہ معظمہ کےاردگرد توسیع منصوبوں پر عمل شروع کرنےکےبعداب یہ مخصوص گروہ اور مسلکی طبقہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اصل جائےپیدائش کو بھی (معاذ اللہ ) ختم کرنا چاہتا ہےاور آج حضور علیہ السلام کی جنم بھومی کو انہدام کا سامنا ہے۔ اخبار کےمطابق نجانےکیوں سعودی عرب کی وزارت مذہبی امور اپنےتاریخی ورثہ کو ضائع کرنےپر تلی ہوئی ہے، یہ بالکل اس طرح ہی ہےجیسے 2000ءمیں افغانستان میں طالبان کےشہر بامیان کو تباہ و برباد کر دیا گیا جسکی بعد ازاں (اوپیک) تیل پیدا کرنیوالےممالک کی خصوصی گرانٹ سےتعمیر نو کی گئی۔ ڈیلی انڈیپینڈنٹ کی اس Top Story کےمطابق یہ مخصوص گروہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کےانہدام کا خطرناک وناپاک منصوبہ بھی بنا چکا ہےجسےوہ باقاعدہ حکمت عملی اور منصوبہ بندی سےکام کررہا ہے۔ سعودی عرب میں اسلامی تعمیرات اور عمارتوں کا وسیع تجربہ رکھنےوالےماہر تعمیرات ڈاکٹر سمیع انگوی ہیں جنہوں نےاپنی زندگی کا طویل حصہ ان دونوں تاریخی شہروں (مکہ و مدینہ ) میں گزارا ہےکا کہنا ہےکہ آج بدقسمتی سےحضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےزمانےکا صرف 20 فیصد انفراسٹرکچر باقی ہےاور 14 سو سال پہلےقائم شدہ اسلامی تاریخ کا اثاثہ جات ختم ہو کر رہےگئےہیں۔ اب جو حصہ اور آثار قدیمہ باقی بچےہیں وہ اسلام کا ایک بہت بڑا اثاثہ وسرمایہ ہیں لیکن ایک خاص طبقہ فکر کےلوگ نہیں کسی بھی وقت ختم یا منہدم کر سکتےہیں۔ اگر ایسا ہوا تو پھر تاریخی شہر مکہ اور مدینہ کی تاریخ یہاں ختم ہو جائےگی جبکہ پھر اس تاریخی شہرکا کوئی مستقبل بھی باقی نہیں رہےگا۔گینز بک آف دی ورلڈ ریکارڈ کےمطابق مکہ و معظمہ عالم اسلام اور دنیا کی سب سےبڑی دیکھی جانیوالی جگہ (Visit Place ) ہےجہاں اسکےساتھ مدینہ منورہ اور تاریخی حیثیت کی حامل ” مسجد نبوی“ بھی ہےجبکہ حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا روضہ مبارک سمیت یہ وہ جگہیں ہیں جہاں سالانہ 4ملین سےزائد لوگ زیارت کیلئےآتےہیں۔ ڈیلی انڈیپنڈنٹ سےاس مخصوص طبقہ کو ڈائریکٹ”WHABISM“ کی اصطلاح سےموسوم کیا ہے۔ اخبار کےمطابق اس تاریخی شہر کو ختم کرنےمیں اس طبقہ کا اہم کردار ہے۔ ان لوگوں نےعرصہ دراز سےخفیہ مہم اور پلان کےذریعےاسکےانہدام کا منصوبہ شروع کیا ہے۔ بدقسمتی سےیہ منصوبہ آج اور بھی کامیاب دکھائی دیتا ہےکہ جب ان لوگوں کی سعودی عرب میں نہ صرف اکثریت بلکہ عنان حکومت بھی ان کےہاتھ ہےتاریخی اعتبار سےاس مخصوص فرقہ کےلوگوں نےنسلاً 1920 میں السعود کی زیر قیادت یہاں نموپائی اور اس کےبعد مختلف ادوار میں یہ یہاں اپنی خفیہ سرگرمیوں میں ملوث رہےہیں۔اس مخصوص فرقہ نےکعبۃ اللہ اور مدینہ منورہ کی تعمیر نو اور اب حضور علیہ اسلام کی جائےپیدائش کا بھیانک گمراہ کن اور ناپاک منصوبہ ایک باقاعدہ منصوبہ بندی کےتحت تیار کیا ہےجسکی ایک مثال یہ ہےکہ آج تک ان لوگوں نےمذہبی ہتھیار کو استعمال کرتےہوئےتاریحی شہر مکہ کو بت پرستی سےپاک کرنیکا نعرہ لگایا ہے۔ بت پرستی اور بتوں کی پوجا کرنا کسی بھی مسلمان کا شیوہ نہیں تو پھر سمجھ نہیں آتا کہ وہ کون لوگ ہیں جو ان کےنزدیک بت پرستی کر رہےہیں حالانکہ کعبۃ اللہ تو اسی دن ہی بتوں سےپاک ہو گیا تھا جس دن حضرت ابراہیم علیہ السلام نےاس گھر کےاندر تمام بتوں کو کلہاڑےکےساتھ پاش پاش کر دیا اور بعدازاں حضور علیہ السلام نےخود ان بتوں کو پاش پاش کرکےسب سےبڑےسردار کےکندھےپر کلہاڑا رکھ کر معاملہ ختم کر دیا تھا لیکن اس مخصوص طبقہ کےنزدیک شاید آج بھی بت پرستی جاری ہے۔ سمجھ نہیں آتا کہ مکہ میں مسلمان بستےہیں یا پھر کفار؟ کیونکہ اسلام میں ایک خدا کی عبادت کا حکم ہےنہ کہ بتوں کی پوجا کا جبکہ مشہور برطانوی مصنف جان رائٹ بریڈی اپنی نئی کتاب ” سعودی عریبیہ ایکسپوزر“ میں لکھتےہیں کہ بتوں کی پوجا آج صرف کفار کےہاں بچی ہےجو آج بھی اس اصول کےکاربند ہیں لیکن آج سعودی عرب میں ایک شدت پسند گروہ اور مذہبی رجحت پسندوں کی حکومت ہےجو اپنےمخصوص مقاصد کی بھر پور تشہیر کر کےکعبۃ اللہ کو بتوں سےپاک کرنےکا نعرہ لگا رہےہیں اور اس کیلئےوہ تشہیر بھی کر رہےہیں اخبار لکھتا ہےکہ ” آج بھی جدہ شہر کی دیواریں اور چوراہےایسےپوسٹرز اور اشتہاروں سےبھرےہوئےہیں جن میں وہ اپنےمذہبی عقائد کی تشہیر کر رہےہیں۔ ڈاکٹر انگوی کےمطابق اس طرح کےمتنازعہ عقائد اور مسائل کی جڑ ”وہابی از م “ ہےجو بتوںکی پوجا کا بہت بڑا تصور رکھتےہیں۔ یہاں کےسرکاری مطوعّوںکےمطابق جنت البقیع میں قبروں کی پرستش بتوں کی طرح کی جاتی ہے۔جنت البقیع میں روزانہ عصر کی نماز کےبعد اجتماع منعقد ہوتا ہےجس میں یہ سرکاری تنخواہ دار مطوعّےایسےعقائد کا پرچار و اظہار کرتےہیں جبکہ انکا تصوربت پرستی اس حد تک الجھاؤ کا شکار ہو گیا ہےکہ مدینہ پاک میں حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےروضہ مبارک کی طرف ہاتھ اٹھاکر دعا بھی نہیں کی جا سکتی۔ان کےنزدیک یہ شرک ہے(نعوذ باللہ ) جنت البقیع میں واقع وسیع و عریض قبرستان کےبارےان لوگوں کا مؤقف یہ ہےکہ یہاں ہزاروں صحابہ کی قبریں ہیں اور وہ یہ نہیں جانتےکہ کون کون سی قبر کس صحابی کی ہےلہذا اس طرح بغیر علم کےچند صحابہ کےنام قبریں موسوم کرنا غلط ہےبلکہ ان لوگوں کو تمام مزارعات کا علم ہےلیکن یہ جان بوجھ کےنہیں بتاتےاور اگر کوئی دعا مانگنا شروع کر دےتو یہ لوگ اسےبت پرستی قرار دیتےہیں اور اس کو فوری منع کرتےہیں۔ جان بریڈی کا کہنا ہےکہ ” سعودی عرب میں آج کل مذہبی شدت پسند بلکہ مذہبی رجحت پسندوں کی حکومت ہےجو صرف اقتدار کےبل بوتےپر اپنےمقاصد کی بھر پور تشہیر کر رہےہیں جبکہ یہ لوگ ایک سوچی سمجھی سازش کےتحت ایکبار پھر شرک کا معاملہ دوبارہ اٹھا رہےہیں جیسےخدانخواستہ یہاں مشرکوں کی آبادی ہے” نعوذ باللہ“جبکہ ڈاکٹر انگوی کا کہنا ہےکہ یہ گروہ بتوں کی پوجا کا غلط تصور قائم کر کےاسمیں حضورعلیہ اسلام کی ذات کو گھسیڑتےہیں جبکہ آج یہ طبقہ شہر مکہ میں حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جائےپیدائش پر مکمل طور پر قابض ہو چکا ہے۔ڈیلی انڈیپنڈنٹ کےمطابق حضورعلیہ السلام کی جائےپیدائش کےانہدام کا منصوبہ آج سے50 سال قبل 1955ءمیں اسوقت باقاعدہ طور پر شروع ہو چکا تھا جب کنگ عبدالعزیز نےیہاں ایک لائبریری بنوائی۔ اب انہوں نےایک سوچی سمجھی سازش اور منصوبےکےتحت اس لائبریری کی توسیع کا فیصلہ کیا ہےتاکہ اسےUpdate کیا جا سکےاور اس کام کی تکمیل کےلئےیہ لوگ حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جائےپیدائش کو لائبریری میں شامل کرنےکا منصوبہ بنا چکےہیں۔ ڈاکٹر انگوی نےیہ بھی انکشاف کیا ہےکہ ” یہ لوگ اپنےمنصوبےمیں عملی طورپر اس قدر کامیاب ہو چکےہیں کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جائےپیدائش کو ایک رات میں بلڈوزروں کےساتھ منہدم کرنیکا ارادہ رکھتےہیں جبکہ ان کےاس منصوبہ کےساتھ بحیرہ عرب کی جنوبی سمت اور جدہ کےمقابل اس جگہ پر ریسرچ سنٹر کی تعمیر کا پلان بھی شامل ہےجسے2دہائیاں قبل بنایا گیا۔ ” گلف انسٹی ٹیوٹ“ اور ”انڈیپنڈینٹ نیوز گریڈنگ گروپ“ کی طرف سےجاری کردہ رپورٹ کےمطابق ”سعودی حکومت کی علماءکونسل نے1994 ءمیں ایک فتویٰ جاری کیا تھا جس میں صرف ان منصوبوں کی کامیاب تکمیل کیلئےان تاریخی عمارتوں اور جگہوں کو بتوں سےپاک کر نےکا نعرہ لگایا گیا جبکہ ”سعودی انسٹی ٹیوٹ“ کےHead آف ڈیپارٹمنٹ علی الاحمد کا کہنا ہےکہ حجاز مقدس کی سرزمین وہ جگہ ہےجہاں ہر سال ہونیوالےاجتماع کی مثال تاریخ میں میں کہیں نہیں ملتی لیکن مسلمانوں کا تاریخی ثقافتی ورثہ آج ختم کیا جا رہا ہے“ ان کےمطابق شاید سعودی حکومت آپ اپنےہاتھوں تہذیبی خود کشی کرنا چاہتی ہی؟ رپورٹ کےمطابق مکہ معظمہ میں اکثر عمارتیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےپوتےعلی اوریدکےگھر کی طرح خستہ ہال ہیں ان عمارتوں کی دریافت کےبعد کنگ فہد بن عبدالعزیز نےانکےانہدام کا حکمنامہ جاری کر دیا تھا۔علی الاحمد کا کہنا ہےکہ اس حکمنامہ کے2گھنٹوں بعد ہی یہاں ہر چیز نیست و نابود کر دی گئی جیسےیہاں کوئی بلڈنگ تھی ہی نہیں۔ لبنانی پروفیسر کنال صلبی کےخیالات بھی علی الاحمد سےملتےہیں۔کنگ فہد کےاس حکمنامہ کےبعد Jewishگؤں میں بھی انہدام کا ایک ایسا واقعہ ہو چکا ہےجس کا ری کیپ اب دوسری جگہوں پر دیکھنےکو ملےگا۔ڈاکٹر انگوی کا یہ تجزیہ اور اندازےانکی حد تک بہت خفیہ تھےاور ان کےمطابق اس مقدس شہر (مکۃ المکرمہ) میں بہت سی جگہیں ایسی ہیں جنکا نقشہ حضرات ابراہیم علیہ السلام کی تاریخ و زمانےمیں ملتا ہے۔1744ءمیں وہابیوں کےنمائندہ رہنما محمد بن عبدالوہاب نےمحمد بن سعود کےساتھ ایک معاہدہ سائن کیا تھا جس میں محمد بن سعود نےانہیں اس بات کا پابند کیا کہ وہ مذہبی اصلاحات کا عمل شروع کریں جس کےبعد یہاں ایک جدید ریاست کی بنیاد پڑ گئی۔ پھر اس خطےمیں کچھ اس طرح کےمعروضی حقائق پیدا ہوئےہیں کہ حکومت اور دولت کا ارتکاز و ذمہ داری وہابیوں کےپاس آگئی جہاں سےان لوگوں کےپاس خطےاور اس ملک میں وہابی ازم کو فروغ دینےکیلئےقوت نافذہ آئی اور پھر ان لوگوں نےدنیا بھر میں اپنےنظریات کا پرچار کیا۔ ڈاکٹر انگوی مزیدکہتےہیں کہ جس آدمی نےمکہ کی تاریخ رقم کی آج وہ اس دنیا میں نہیں لیکن اسکی عدم موجودگی میں اللہ تعالیٰ اس گھر کی حفاظت کئےہوئےہیں۔ ان کا کہنا ہےکہ ” آج حج بیت اللہ کیلئےدنیا بھر سےآئےہوئےلاکھوں فرزندان اسلام سعودی حکومت کیلئےمسئلہ بن گئےہیں اورآئندہ برس 20 ملین سےزاید مسلمان حج بیت اللہ کیلئےآئیں گے۔ اس صورتحال کےپیش نظربہت سی اسٹیٹ ایجنسیاں حجاز کی بڑھتی ہوئی تعداد کو مدنظر رکھتےہوئےسعودی حکام سےنئی رہائش گاہوں کی تعمیر کیلئےمسلسل رابطہ میں ہیں اس سلسلےمیں بنیادی سہولیات اور انفراسٹرکچر حوصلہ افزاءنہیں ہےایک بڑی سعودی اسٹیٹ ایجنسی کےڈائریکٹر کےمطابق نئےہوٹلز ، ایپارٹمنٹ اور دیگر سروسز بہت بری ہیں ۔ان سہولیات کی بہترین فراہمی کیلئےایک بہت بڑی رقم درکا ہےجس سےمکہ کےگردو نواح میں یہ تمام سہولیات بہتر کی جائینگی۔ علی الاحمد کا کہنا ہےکہ اگر وہ اس نئےاصلاحاتی پیکج کو فوراً قابل عمل بنائےتو پھر مکہ اور جدہ جبکہ مکہ اور مدینہ کےدرمیان ایک وسیع ریلوےلائن بھی تعمیر کی جائیگی۔اسطرح کعبۃ اللہ کےبالکل سامنے” باب عبدالعزیز“ کےبالمقابل 65 اور 80 منزلہ بلڈنگز کی تعمیر کا منصوبہ شروع ہےجسکا ٹھیکہ بن لادن کمپنی کےپاس ہے۔ یہ عمارتیں حرم کعبہ سےاس قدر بلند و بالا ہیں انکی تعمیر کےبعد کعبہ کی انفرادیت ختم ہو کر رہ جائےگی جبکہ کعبۃ اللہ ان عمارتوں کےاندرگھر کر رہ جائےگا۔جسےبعد ازاں گرا کر تعمیر نو کرنیکا ناپاک منصوبہ شامل ہے۔ دوسری طرف جبل عمرمیں توسیعی منصوبےکےمطابق مستقبل میں وہاں 50 منزلہ ہوٹلز کی تعمیر جبکہ سات 35 منزلہ اپارٹمنٹ بلاکس کی تعمیر کا نقشہ بھی شامل ہےاور یہ تمام بڑےعمدہ پتھروں سےتعمیر کئےجائیں گےجو کہ بڑی مسجد کا حصہ ہیں۔ ڈاکٹر انگوی کا کہنا ہےکہ آجکل یروشلم کی تعمیر و ترقی کی بھی تجاویز زیرغور ہیں تاہم طالبان کی تحریک کو بامیان میں کشیدگی کی وجہ سےUN کا ادارہ ”یونیسف“ اسکی مذمت کرچکاہےاگر مکہ کو بھی اس طرح گرایا گیا یا اسکی تبدیلی کا خاکہ عملی طور پر شروع کیا گیا تو پھر عالم اسلام سےایک ناقابل برداشت رد عمل اور احتجاج سامنےآئےگا۔ انہوں نےیہ بات زوردیکر کہی کہ آج وہ جگہ جہاں حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اللہ تعالیٰ کی وحی اترتی تھی یعنی غارحرا بھی محفوظ نہیں ہے۔اب اگر اس خاص مکتبہ فکر کےلوگوں کی سازش کےمطابق حضور علیہ اسلام کی اصل جائےپیدائش کو گرانا اور تعمیر نو کےنام پر یہ نودارات ختم کرنا ان کےگھنؤنےمنصوبہ میں شامل ہے۔ آج اگر ان کو اس کام سےنہ روکا گیا تو عنقریب بلکہ چند سالوں میں مکہ مکرمہ اور مدینہ پاک کی تاریخی حیثیت ختم ہو جائےگی اور پھر انگریز ” مکرکی چال“ کےذریعےاپنی حکمت عملی میں کامیابی حاصل کرلےگا۔ آج اس ایشو کو عالم اسلام بلکہ عالمی سطح پر بلند کرنیکی ضرورت ہےلیکن اس گروہ کی سازشوں کا اندازہ اس بات سےلگایا جا سکتا ہےکہ 6 اگست کےڈیلی انڈیپینڈنٹ کی صفحہ اول کی Top Story کو نہ تو کسی اردو روزنامےنےترجمہ کر کےشائع کیا اورنہ ہی کسی انگریزی اخبار میں کالم لکھا گیا بلکہ حقائق سےآنکھیں چراتےہوئےمنہ موڑ لیا گیا۔ اب اگر اج بھی اس تاریخی سازش اور عالم اسلام کےعظیم ثقافتی ورثہ کےتحفظ کی آواز بلند نہ کی گئی تو بعید نہیں کہ یہ مخصوص طبقہ اپنےناپاک عزائم میں کامیاب بھی ہو جائےاور اگر ایسا ہوا تو تاریخ اسلام کا سنہری باب یہاں ختم ہو جائےگا بلکہ سعودی حکومت کیلئےخود سازی بن جائےگی۔ آئیےآج ہم بحیثیت مسلمان اپنےاس فریضہ کو پورا کریں ورنہ کل روز محشر سوائےشرمندگی کےکچھ نہیں ملےگا۔

۔داعش کے ہاتھوں انبیا کے مزارات و مساجد کی تباہی اور خاموش او آئی سی؟


اپنے آپ کو دولت اسلامیہ فی عراق و شام داعش کہنی والی نام نہاد اسلامی تنظیم اور اس کے خلیفہ ابوبکر البغدادی کے حکم پر گزشتہ چند دنوں سے عراق میں حضرت یونس ع سمیت درجنوں پیغمبران خدا اور ان سے متصل مساجد مزارات و مقدس مقامات کی کھلے عام نعرہ تکبیر کے نعروں میں تباہی اور پھر داعش کی طرف سے اس کی فخریہ ویڈیوز شائع کرنے نے اسلام کو پوری دنیا میں بدنام کردیا ہے۔۔۔اس کے علاوہ موصل اور تکریت کے علاقوں میں داعش کی طرف سے خواتین کے لئے ختنہ کی شرط اور خواتین بالخصوص کنواری لڑکیوں کو اپنے آپ کو نام نہاد داعش مجاہدین کی جنسی تسکین کے لئے جہاد بالنکاح کے لئے پیش کرنے جیسی شرائط نے قبل از اسلام مشرکین کے دور سے بھی بدتر اقدامات کئیے ہیں۔ یاد رہے تکفیری وہابی نظریئے کے حامل(یعنی اپنے علاوہ تمام مسلمانوں کو کافر سمجھنی والی) داعش القاعدہ النصرہ طالبان و سپاہ یزید لعین جیسے گروہوں نے عراق شام حجاز افغانستان و پاکستان میں مقامات مقدسہ اور اسلامی ورثے کی تباہی و پامالی شروع کردی ہے لیکن اس پر عالم اسلام بالخصوص او آئی سی کی خاموشی سمجھ سے بالاتر ہے؟؟؟ نام نہاد دولت اسلامیہ فی عراق و شام داعش اور اس کے خلیفہ ابوبکر البغدادی کی اصلیت گزشتہ دنوں سابق امریکی جاسوس ایڈورڈ سنوڈن نے واضح کردی کہ کئی سال پہلے اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد نے داعش کے خلیفہ سمیت سینکڑوں تکفیری دہشت گردوں کو اردن کے خفیہ تربیتی کیمہپ میں تربیت دی، جس کا مقصد مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے کے علاوہ مشرق وسطی میں اسرائیل مخالف ممالک بالخصوص سیریا کے لئے داخلی محاز بنانا ہے اس بات کی حقیقت یوں بھی عیاں ہے کہ ایک طرف غزہ فلسطین میں ظلم و جبر کی انتہاہے لیکن مملکت شام یا سوریا میں نواسی رسول ص بی بی زینب س کے مزار پر حملہ کرنے والی آئیڈیالوجی کوئی نئی بات نہیں بلکہ اسلام دشمن نواصب خوارج و تکفیری عناصر بالخصوص بنی امیہ بنی عباس و گزشتہ صدی میں آل سعود یہ کام کرتے رہے ہیں۔ حالانکہ دنیا بھر کے مذہب و تہذیبوں کی طرح اسلام بھی ایک ذندہ جاوید مزہب اور مکمل ضابطہ حیات ہیں۔آج بھی دنیا کے مختلف مذاہب اور تہذبیں بشمول مسلمان اپنا ورثہ محفوظ کر رہے ہیں، بلکہ اس کے لئے کوششیں کر رہے ہیں۔ قبلہ اول بیت المقدس کو صیہونیوں کے چنگل سے چھڑانا اور اس کے لئے کوشش کرنا بھی اس لئے ہے کہ قبلہ اول بیت المقدس دین حق اسلام کا ہی ورثہ اور مسلمانوں کا پہلا قبلہ ہے قبلہ اول بیت المقدس کی پامالی تو صیہونیوں کے ہاتھ ہوئی لیکن افسوس صد افسوس حجاز مکہ و مدینہ میں اسلامی ورثہ اور شعائر اللہ کی پامالی اور انہدام اپنے آپ کو مسلمان کہنے والے وہابیوں آل سعود کے ہاتھ ہوئی اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ آل سعود کی مجرمانہ کردار کا اس سے بڑھ کر کیا ثبوت ہو سکتا ہے کہ حجاز کی مقدس سرزمین پر کئی دہائیوں سے قابض آل سعود کے مطلق العنان بادشاہوں کے ورثے کو محفوظ بنانے کے لئے کروڑوں ڈالرز اور ریال کے منصوبے شروع کر دئیے گئیے ہیں۔۔۔۔لیکن آل رسول ص اور اہلبیت اطہار ؑ کے صدیوں سے قائم مزارات اور مساجد و مقدس مقامات اسلامی ورثے کو منہدم کر دیا گیا اور یہ سلسہ آج بھی جاری ہے۔۔لیکن تکفیری وہابی نظریئے کے حامل(یعنی اپنے علاوہ تمام مسلمانوں کو کافر سمجھنی والی) داعش القاعدہ النصرہ طالبان و سپاہ یزید لعین جیسے گروہوں نے آج تک اسرائیل کے خلاف جہاد تو چھوڑئیے ایک لفظ تک مزمت نہیں کی ہے۔۔۔۔؟ تکفیری وہابی نظریئے کے حامل(یعنی اپنے علاوہ تمام مسلمانوں کو کافر سمجھنی والی) داعش القاعدہ النصرہ طالبان و سپاہ یزید لعین جیسے گروہوں کی اسرائیل کے مفادات کے لئے کام کرنے اور ایڈورڈ سنوڈن کے انکشافات گوگل سرچ یا پھر قارئین اس لنک کو بھی دیکھ سکتے ہیں۔ PROOF LINK :- ISRAIEL/U.S. Trained ISIS at Secret Jordan Base http://www.globalresearch.ca/u-s-trained-isis-at-secret-jordan-base/5387532 اسی طرح گزشتہ سال سوریا یا مملکت شام کے دارالخلافے دمشق کے مضافات میں واقعے نواسی رسول ص حضرت بی بی زینب سلام اللہ علیہ کے مزار پر تکفیری و وہابی نظریات کے حامل داعش القاعدہ النصرہ و طالبان دہشت گردوں کے حملے نے اگر ایک طرف قلب اطہر رسول ص و آل رسول ص اہلبیت علیہم سلام کو زخمی کردیا ہے تو دوسری طرف دنیا بھر میں کروڑوں مسلمانوں کے جزبات مجروح کرکے عالمی احتجاج شروع ہو گیا تھا بی بی زینب کے مزار اقدس پر یزید وقت امریکہ کی ایما پر حملہ کرکے دراصل تکفیری و وہابی نظریات کے حامل داعش القاعدہ النصرہ و طالبان دہشت گردوں نے یہ بات ثابت کردی ہے کہ یہی دور حاضر کے ماڈرن یزیدت اور خوارج ہیں، کیونکہ تکفیری و وہابی نظریات کے حامل داعش القاعدہ النصرہ و طالبان دہشت گردوں کا یہی گروہ عراق افغانستان اور پاکستان میں بھی مساجد و مقدس مقامات کو خون کی ہولی میں رنگین کر رہے ہیں اور اسی نظریہ وہابیت نے بیسویں صدی کے آغاز میں برطانوی استعمار آل سعود کی شکل میں مکہ و مدینہ کے مقدس مقامات جنت المعلی اور جنت البقیع میں اہلبیت ع رسول ص و اصحاب رض کے روضے مسمار کرکے یہاں تک کہ روضہ رسول ص کی مسماری کے فتوے دئیے تھے، لیکن عالم اسلام میں متوقع شدید ردعمل اور قادیانیوں کی طرح غیر مسلم قرار دئیے جانے کے ڈر سے آل سعود و وہابیوں نے یہ کام روکے رکھا۔ پاکستان کے جید علما و سکالرز جیسے مفتی سرفراز نعینی اور نورالحق قادری بارہا اس بات کا تذکرہ اپنے لیکچرز و انٹرویو میں کر چکے ہیں کہ آل سعود کو روضہ رسول ص کی تقدس کا کوئی لحاظ نہیں صرف اور صرف حج و رمضان سیزن میں اگر کمائی نہ ہوتی تو آل سعود مکہ و مدینہ کے باقی ماندہ مقامات مقدسہ بھی کب کے مسمار کر چکے ہوتے۔ تکفیری و وہابی نظریات کے حامل القاعدہ النصرہ و طالبان دہشت گردوں کے ہاتھوں بی بی زینب کے مزار اقدس پر حملہ اس وقت ہوا ہے جب تازہ ترین رپورٹوں کے مطابق تحریک طالبان پاکستان یا ٹی ٹی پی کے سینکڑوں دہشت گرد دمشق میں داخل ہوئے ہیں۔۔۔۔یہ اقدام پاکستان کی سیکورٹی اداروں کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان اور اگر طالبان کو امریکی اشیرباد کے تحت ریاستی سطح پر دمشق پہنچایا گیا ہے تو یہ بات واضح ہے کہ بی بی زینب کے مزار اقدس پر حملے کی زمہ داری براہ راست ان اداروں کے زمہ داران پر بھی عائد ہوتی ہے۔۔وہی بی بی زینب س جس نے دربار یذید لعین میں یذید کو للکار کر کہا تھا کہ تو چاہے جتنا جتن کرلیں ہم اہلبیت ع محمد و آل محمد ص کی محبت تو دلوں سے ختم نہیں کرسکتا،،،یہی وجہ ہے کہ مزار اقدس پر حملے کے بعد عالمی سطح پر احتجاج جاری ہیں۔۔اور حکیم الامت مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال نے اسلام کی بقا کو دو ابواب حسینی ع و زینبی س کردار میں تقسیم کرکے کیا خوب نقشہ پیش کیا ہے حدیث عشق دو باب است، کربلا و دمشق یک حسین ؑ رقم کرد و دیگر زینب س نواسی رسول ص حضرت بی بی زینب سلام اللہ علیہ کے مزار پر تکفیری و وہابی نظریات کے حامل القاعدہ النصرہ و طالبان دہشت گردوں کے حملے کرنے والے بزدل خوارج کے لئے مولانہ ظفر علیخان کا یہ شعر ہی کافی ہے کہ اب بھی زمانے میں اہلبیت ع کا نام روشن اور اسلام دشمن جگر خوارہ ہندہ و ابوسفیان کی سفیانی نسل یذید لعین اور اس کے اجداد کا نام لعنتوں کا حقدار ہے۔ اب بھی چمک رہا ہے حسین و علی کا نام اور خاک اڑ رہی ہے یذید و زیاد کی سوریا دمشق یا برصیغر کی اصطلاح میں مملکت شام میں گزشتہ دو سالوں سے جاری شورش دراصل غیر ملکی یلغار کے اندر رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق پاکستان سمیت 29 ممالک سے القاعدہ و طالبان سے منسلک جنگجو فساد بنام جہاد کے تحت مشغول ہیں(پاکستان سے دمشق کے لئے فساد بنام جہاد کے لئے ایک سال پہلے وزیرستان سے جانے والے طالبان و القاعدہ سے وابستہ معروف چیچن کمانڈر روسلان کیلائیو حلب شام کے مقام پر درجنوں جنگجووں سمیت پہنچ چکے تھے جس پر برمنگھم سے پاکستانی نژاد برطانوی رکن پارلیمنیٹ خالد محمود نے چیخ چیخ کر احتجاج بھی کیا کہ پاکستانی اور برطانوی خفیہ ادارے شامی باغیوں کے لیے ہونے والی بھرتی سے چشم پوشی کر رہے جس کے نتیجے میں پاکستان اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں نوجوانوں کو ضروری تربیت کے بعد دمشق کے محاذ پر امریکی و اسرائیلی مفادات کے لئے بھجوایا گیا۔۔۔۔۔ایک سال کی طویل خاموشی کے بعد گزشتہ دنوں ایک بار پھر چونکا دینے والے میڈیا رپورٹس اور تحریک طالبان پاکستان کے عہدیداروں کی تصدیق کہ طالبان دمشق میں بشار الاسد حکومت کے خاتمے کے لئے امریکی امامت میں جہاد کے لئے تازہ دم افرادی قوت بھیج رہی ہیں ایک بار پھر اس موضوع کو میڈیا کے زریعے بازگشت سنائی دی ہے۔۔۔حالانکہ پاکستانی طالبان کی سوریا یا شام میں موجودگی کوئی انہونی بات نہیں سوشل میڈیا اور سریا ٹیوب نامی ایک ویڈیو سائیٹ میں دمشق میں ہلاک ہونے والے پاکستانی طالبان کی لاشوں کی ویڈیوز گوگل سرچ پر بھی دیکھی جاسکتی ہیں۔۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ سوریا میں نام نہاد جہاد اصل میں فساد کی تمام تر نگرانی اور امامت امریکہ بہادر کر رہا ہے کہ جو دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ اور القاعدہ و طالبان اور کمیائی ہتھیاروں کے بہانے افغانستان و عراق کو تباہ و برباد کر چکا پے اب یہی امریکہ اپنے ناجائز اولاد اسرائیل کو استحکام دینے اور سوریا میں اسرائیل مخالف بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے لئے القاعدہ اور اس کے زیلی تنظیموں النصرہ اور طالبان جییسے گروہوں کی سپرستی کرکے اپنے پٹھو عرب ممالک بالخصوص قطر سعودی عرب اور نیٹو کے پلیٹ فارم کا ناجائز فائدہ لینے والے ترکی کی مدد سے امریکہ اسلحہ سے لیکر لاجسٹک سپلائی و ڈالرز اور دنیا بھر سے جنگجووں کو جہاد شام کے لئے بھجوا رہا ہے۔ سوریا یا شام میں موجود فلسطین کی حامی اور اسرائیل مخالف بشار الاسد کا واحد جرم یہ ہے کہ بشار الاسد کی حکوم اسارئیل مخالف گروہوں حماس و حزب اللہ کی طرفدار اور لبنان و غزہ پر صیہونی جارحیت میں فلسطین کاز کی حمایت میں اہم کردار ادا کرتا رہا ہے اور اب بھی ادا کر رہا ہے مشرق وسطی میں شام کی جغرافیائی اہمیت سب سے ذیادہ اسلئے ہے کہ شام کی سرحدیں لبنان عراق ترکی کے علاوہ مقبوضہ فلسطین جولان یا گولان کی پہاڑیوں پر قابض اسرائیل سے بھی ملتی ہیں۔ امریکہ اور اسرائیل نے مشرق وسطی کی باقی عرب ریاستوں کو تو اپنی لونڈی بنا دیا ہے اگر واحد رکاوٹ ہے تو وہ سوریا یا شام ہی ہے امریکہ و اسرائیل اور یورپی یونین کی طرف سے جہاد شام کی سرپرستی کا مقصد اگر ایک طرف شام میں اسرائیل نواز حکموت کا قیام ہے تو دوسری طرف شام پر قبضہ جمانے کی صورت میں شام سے متصل لبنان میں اسرائیل مخالف مزاحمتی تحریک حزب اللہ اور اس کے طرفدار غزہ فلسطین میں موجود حماس کے خلاف گھیرا تنگ کرکے اپنے ناپاک مقاصد حاصل کرنا ہیں۔۔۔یہی وجہ ہے کہ حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصر اللہ نے اس سازش کا پہلے سے ادراک کرتے ہوئے لبنان کی سرحد سے متصل قوصیر شہر میں حزب اللہ کے جنگجووں کو شامی فوج کی حمایت میں بھجوا کر لبنان سے متصل قصویر شہر کو آذاد کرکے امریکی و اسرائیلی جہادیوں 29 ممالک کے باغیوں کو ایسی شکست دی کہ اسرائیل و امریکہ کو جولائی سن دو ہزار چھ کی جنگ یاد دلادی ایسی جنگ جسمیں حزب اللہ نے اسرائیل کو باوجود اس کے بدترین شکست دی جب وہابی مفتیوں نے اسرائیل کی حمایت اور حزب اللہ کے خلاف فتوے تک دئیے تھے (یاد رہے حزب اللہ نے یہ جنگ اسرائیل کی طرف سے فلسطین میں حماس کے گرد گھیرا تنگ کرنے اور حماس کے خلاف مظالم کا بدلہ لینے کے لئے قبلہ اول کے تحفظ کے لئے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر لڑی اگر چہ اس وقت بھی مشرق وسطی بالخصوص آل سعود کے درباری وہابی مفتیوں نے اسرائیل اور حزب اللہ کی جنگ میں حزب اللہ کی حمایت کو کفر اور حزب اللہ کے مقابلے میں اسرائیل کی حمایت کا اعلان کیا تھا اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے کہ جب آل سعود کے وہابی مفتی اور قطر کا مفتی اعظم قرضاوی اپنے فتووں اور جمعہ کے خطبات میں چیخ چیخ کر اور اللہ کے واسطے دے کر امریکہ سے شام یا سوریا میں مجاہدین کے لئے مذید اسلحہ بیجنے کی فریادیں کر رہیں ہیں اور دوسری طرف نام نہاد مجاہدین کی جنسی پیاس بجھانے کے لئے جہاد نکاح جیسے فتوے دیکر تیونس مصر و دیگر عرب ممالک سے نوجوان لڑکیاں تک پہنچا رہے ہیں، اس شرمناک فعل نے تحریک طالبان کی طرف سے وزیرستان و سوات میں خواتین کی عصمت دری جیسے واقعات سے ایک قدم آگے بڑھ گئیے ہیں۔۔۔ حالانکہ آج تک ان وہابی مفتیوں کا فلسطین کی حمایت اور اسرائیل کے خلاف ایک فتوی بھی نہیں آیا۔۔۔؟؟ْمذید برآن اسلام کے نام نہاد جان لیوا مجاہدین القاعدہ و طالبان کا اب تک ایک بھی بندہ بھی اسرائیل مخالف جہاد فلسطین میں شامل نہیں ہوا اور نہ ہی قبلہ اول کی آزادی کی تحریک میں حصہ لیا؟ْ؟؟ القاعدہ و طالبان نے اگر حصہ لیا تو صرف اور صرف عراق افغانستان پاکستان اور اب سوریا یا شام میں امریکی و اسرائیلی مفادات کے لئے پبلک مقامات مساجد مقدس مقامات پر خودکش حملے کرکے کلمہ گو مسلمانوں کو خون میں نہلانے کے ساتھ ساتھ مقدس مقامات کی توہین کرکے حتی کہ سوریا یا شام میں القاعدہ کے زیلی تنظیم النصرہ سے منسلک جہادیوں نے قتل ہونے والے شامی فوجی کا دل چبا کر دور جہالیت کے ملعونوں ابوجہل ابوسفیان اور ہندہ کی تاریخ دہرادی جب ابوسفیان کی بیوی اور یذید لعین کی دادی ہندہ نے رسول اللہ ص کے چچا حضرت حمزہ رض کا کلیجہ چبایا تھا۔۔۔۔اسی طرح القاعدہ کے زیلی تنظیم النصرہ کے نام نہاد جہادیوں نے سوریا یا شام ہی میں رسول اللہ ص کے جید صحابی حضرت حجر بن عدی رض کی قبر کشائی کرکے جسد اقدس کی بے حرمتی کرکے مزار اقدس کو مسمار کردیا۔۔۔۔پاکستان میں اپنے آپ کو صحابہ رض اور اسلام کے ٹھیکدار کہنے والے سپاہ صحابہ و تحریک طالبان کے دہشت گرد اس توہین صحابہ رض پر نہ صرف خاموش رہے بلکہ درااصل امریکی امامت میں جہاد شام میں عملی حصہ لے کر یا اس جہاد کی حمایت کرکے یہاں تک کہ سپاہ صحابہ نے پاکستان میں شام کے سفارتخانے پر حملے کے بیانات تک جاری کئیئ دراصل اس جرم میں شریک رہے ہیں۔۔۔۔۔امریکی امامت میں لڑنے والے القاعدہ کے زیلی تنظیم النصرہ اور سپاہ صحابہ و تحریک طالبان پاکستان کے ان جہادیوں کے اس نام نہاد عظیم جہا ۔۔۔۔۔اور جنت جانے کے شوق۔۔۔۔۔۔کو حکیم الامت علامہ اقبال نے کئی دہائیاں پہلے بیان کیا تھا۔۔ ؎ ناحق کے لئے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ شمشیر ہی کیا نعرہ تکبیر بھی فتنہ ایک حوصلہ افزا اور امید کی بات یہ ہے کہ مشرق وسطی میں امریکی و اسرائیلی مفادات کے لئے فلسطین و قبلہ اول کی آزادی کی دو حامی تنظیمیں حزب اللہ و حماس عالم اسلام کے دو بازوں کی طرح اگر چہ مختلف مسالک سے وابستہ ہیں لیکن دونوں بھائیوں کی طرح یہ بات سمجھ چکے ہیں کہ شام یا سوریا میں جہاد دراصل امریکی و اسرائیلی مفاد کا جہاد ہے اسلئے حزب اللہ اور حماس کی قیادت نے اس فتنہ کے خلاف مزاحمت کے لئے ایک بار پھر آپسمیں اتحاد کرلیا ہے۔۔۔جس کا اظہار حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصراللہ نے اپنے حالیہ تقاریروں میں کھل کر کیا ہے کہ اگرچہ حزب اللہ ہمیشہ سے اسرائیل و امریکہ کے خلاف براہراست لڑ کر فلسطین کی آزادی کے لئے برسرپیکار رہی ہے ،،،،لیکن شام یا سوریا میں حزب اللہ کا شامی فوج کی حمایت اور القاعدہ و طالبان کے تکفیری و خوارج نظریہ کے حامل دہشت گردوں سے بادل نحواستہ اور تنگ آمد بہ جنگ آمد لڑنا بھی اصل میں ان تنظیموں کے آقا امریکہ و اسرائیل کو ہی شکست دینا ہے کیونکہ لبنان سرحد سے متصل قوصیر پر قبضے کے بعد القاعدہ کے زیلی تنظیم النصرہ و طالبان کا اگلا حدف لبنان و فلسطین میں حزب اللہ و حماس کا ہی خاتمہ کرنا ہے۔۔۔ حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصراللہ نے امریکی و صیہونی مفادات کے لئے کام کرنے والے بعض میڈیا رپورٹوں کے منفی پروپیگنڈے کہ شام یا مشرق وسطی میں مسلکی جنگ ہو رہی ہے کا کھل کر جواب دیتے ہوئے کہا کہ القاعدہ کے زیلی تنظیم النصرہ اور سپاہ صحابہ و تحریک طالبان پاکستان کے تکفیری دہشت گرد شیعہ سنی دونوں مکاتب فکر کے دشمن ہیں جس کا واضح ثبوت عراق افغانستان و پاکستان میں انہی دہشت گردوں کے ہاتھوں شیعہ و سنی دونوں مکاتب فکر کے پیروکاروں پر حملے مساجد مزارات اور جنازے کے نمازوں کے اجتماعات پر حملے اور پاکستان میں الکشن کے دوران سنی مسلمانوں کا قتل عام واضح دلیل ہیں۔۔۔سید حسن نصر اللہ نے القاعدہ کے زیلی تنظیم النصرہ اور سپاہ صحابہ و تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گردوں کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ صحابی رسول ص حضرت حجر بن عدی رض کے جسد اور مزار کی بے حرمتی کے دلخراش واقعے کے بعد القاعدہ کے زیلی تنظیم النصرہ اور وہابی دہشت گردوں سے سوریا یا شام میں اصحاب رسول ص اور اہلبیت رسول ص کے مقدس مزارات بالخصوص رسول اللہ ص کی نواسی اور امام حسین ع کی بہین شریکتہ الحسین ع بی بی زینب سلام اللہ علیہ کے دمشق میں واقع مزار اقدس اور دیگر مقدس مقامات کے دفاع کے لئے حزب اللہ کے جوان اپنے خون کے آخری قطرے تک دفاع کریں گے۔ القاعدہ کے زیلی تنظیم النصرہ اور سپاہ صحابہ و تحریک طالبان پاکستان جو کہ وہابی و تکفیری آئیڈلوجی کی حامل ہے جو اپنے علاوہ دیگر تمام مسلمانوں کو کافر کہلوا کر قتل عام کرتی ہے ان درندہ صفت افراد سے انسانوں کا ناحق خون اور مقدس مقامات کی توہین کوئی انوکھی بات نہیں ۔۔۔دراصل بوڑھے استعمار یا برطانیہ نے گزشتہ دو سو سال کے دوران اسلام کے نام پر اسلام کو بدنام کرنے کے لئے دنیا بھر میں تین فتنے یا عقیدے و آئیڈیالوجی پیدا کرکے اسلام کو بدنام کیا ۔۔۔ان تین فتنوں میں مشرق وسطی میں آل سعود کے زریعے فتنئہ وہابیت ،ایران یا فارس میں فتنئہ بہایت اور برصیغر پاک و ہند میں فتنئہ قادینیت یعنی وہابی ،بہائی اور قادیانی فتنے کے زریعے چودہ سو سال پہلے مکمل ضابطئہ حیات اسلام کو دنیا بھر میں وحشی و بدنما یا پھر عیاش صورت میں پیش کیا حالانکہ یہ تنیوں فتنے گزشتہ دو سو سال کی پیداورا ہیں اس موضوع کو صحیح سمجھنے کے لئے قارئین مشہور برطانوی جاسوس ہیمفرے کے احترافات یا لارنس آف عربیا کا مطالعہ کرسکتے ہیں۔۔۔۔بوڑھے استعمار برطانیہ کے پیداکردہ ان تین فتنوں بالخصوص فتنہ وہابیت(القاعدہ اور سپاہ صحابہ و تحریک طالبان پاکستان) کی بعد میں امریکہ و اسرائیل نے کھل کر حمایت کی اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ سن اسی کی دہائی میں سی آئی کے زیر اہتمام روس کے خلاف نان نہاد افغان جہاد کے نام پر امریکی سی آئی اے اور ضیا حکومت نے القاعد اور سپاہ صحابہ و تحریک طالبان پاکستان کی بھرپور حمایت کی جس کا برملا اظہار سابق امریکی وزیر خارجہ کی اس اقرار جرم والی خطاب میں بھی ملتی ہے جو سوشل میڈیا میں کافی مشہور ہو چکی ہے کہ ہم یعنی امریکہ نے پاکستان کی مدد سے وہابی طرز فکر اور جہاد کی سرپرستی کی۔۔۔ http://www.youtube.com/watch?v=J1CW2XuDAQ4 اور یہ سلسلہ اب بھی قطر میں طالبان کے دفتر اور امریکہ طالبان یکجہتی کے علاوہ شام یا سوریا میں امریکی امامت میں اسرائیلی مفادت کے لئے جہاد شام میں القاعدہ کے زیلی تنظیم النصرہ اور سپاہ صحابہ و تحریک طالبان پاکستان کا جہاد میں سلسلہ لینے کا جاری سلسلہ ہے۔۔۔نہ جانے پاکستان کے مقتدر ادارے کب تک امریکی ایما پر آستین کے ان سانپ القاعدہ اور سپاہ صحابہ و تحریک طالبان پاکستان کو جہادی کرائے کے قاتلوں کی صورت میں افغانستان وزیرستان یا شام و دمشق میں بھیج کر امریکی امامت میں جہاد کا فریضہ انجام دیتے رہیں گے اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کرے گا۔۔۔لیکن ایک بات ضرور یاد رہے کہ اللہ کے ہاں دیر ہے لیکن اندھیر نہیں۔۔۔ایک دن این سفیانی و دجالی نظاموں کا خاتمہ ضرور ہونا ہے اور مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر کے مشترکہ عقیدے کے مطابق منجعی بشریعت امام مہدی ع کا انقلاب بہت جلد آنے والاہے۔۔بقول علامہ اقبال ؎ دنیا کو ہے اس مہدی برحق کی ضرورت ہو جس کی نگہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔زلزلہ عالم افکار ؎ بتا رہی ہیں یہ تبدیلیاں زمانے کی کسی ولی کا یقیننا ظہور ہونا ہے اسلامی ورثہ جسے قرآن نے شعائر اللہ یعنی اللہ کی نشانیاں قرار دیا کی اہمیت اس لئے ہیں کہ اس ورثے کو دیکھ کر لوگ اور آنی والی نسلیں اللہ کے دین کی طرف متوجہ ہو کر تقوی الہی اختیار کریں ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے صفی و مروی کی پہاڑیوں کو شعائر اللہ کہی کر پکارا ہے۔ اسی طرح حجر اسود ظاہرا ایک پتھر ہے لیکن اللہ کے نذدیک اہمیت اتنی ہے کہ ہر حاجی کی خواہش ہوتی ہے کہ حجر اسود کو بوسہ دیا جائے اور تمام تر مکاتب اسلام کے ہاں یہ عین عباد ت و ثواب کا کام ہے۔۔۔کیا حجر اسود کو بوسہ دینے اور چومنے سے خدانخوانستہ کوئی شخص بت پرستی و پتھر پرستی کا مرتکب ہو رہا ہے ،ہرگز نہیں بلکہ حجر اسود کو چومنا اللہ کی ایک نشانی کو چومنا ہے جس سے عقیدہ توحید میں اضافہ ہوتا ہے۔ یا مذید آسانی کی خاطر اگر کوئی شخص اپنی بوڑھی ماں کے ہاتھ کو عقیدت و عزت کی خاطر بوسا دیتا ہے تو کیا نعوز باللہ وہ شرک و بدعت کرکے ماں کو پوج رہا ہے، ہرگز نہیں بلکہ ماں کے مقام میں ماں کی عزت و احترام کرتا ہے نا کہ معبود و خالق کے مقام میں کیونکہ معبود کے مقام تک کوئی نہیں پہنچ سکتا، اللہ لاشریک و لامحدود ہے اور اس کا احاطہ کرنا محال و ناممکن ہے۔ ماں کا ماں کے مقام پر احترام عین اسلام اور حکم پروردگار ہے۔ لیکن اپنے آپ کے علاوہ دیگر تمام مسلمانوں کو کافر کہنے والے وہابیت اس حقیقت کو سمجھنے کی بجائے ہر چیز حتی کہ ماں کا ماں کے درجے میں احترام کو بھی شرک و بدعت قرار دے کر کفر کے فتوے والی فیکڑی سے فتوے دینا شروع کر دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔حالانکہ اوائل اسلام حتی کہ رسول اللہ ،ص کی ذندگی میں گزشتہ انبیا ؑ اور اولیا کے قبور کی تعمیر اور پیغمبروںؑ ،اولیاء اور خدا کے نیک بندوں کی قبروں پر عمارت یا مزار بنانے کا سلسلہ موجود تھا، اور رسول ص کے زمانے میں مسلمان و اصحاب رسول ص انبیاؑ و اولیاؑ کے قبور و مزارات پر دعا کے لئے جاتے تھے۔ اگر یہ عمل اسلام کے خلاف یا نعوز باللہ شرک و بدعت ہوتا تو رسول ص اپنے زمانے ہی میں مسلمانوں کو روک لیتے لیکن ایسا ہرگز نہیں ہوا۔ اس مسئلے کو سب سے پہلے ابن تیمیہ کے مشہور و معروف شاگرد ( ابن القیم ) نے چھیڑا اور اولیاء خدا نیز پیغمبروں کی قبروں پر عمارت بنانا حرام قرار دیا ۔ اور ان کی ویرانی و انہدام کا فتویٰ دیا ہے ۔ ابن القیم اپنی کتاب (زاد المعاد فی ھدی خیر العباد )(زاد المعاد ص٦٦١) میں لکھتا ہے : ''یجب ھدم المشاھد التی بُنِیَت علی القبور ، و لا یجوز ابقاء ھا بعد القدرة علیٰ ھدمھا و ابطالھا یوماً واحداً'' ( قبروں پر تعمیر شدہ عمارتوں کو ڈھانا واجب ہے ، اگر انہدام اور ویرانی ممکن ہو تو ایک دن بھی تاخیر کرنا جائز نہیں ہے) ١٣٤٤ھ میں جب کہ آل سعود نے مکہ و مدینہ کے گرد و نواح میں اپنا پورا تسلط جمایا تو مقدس مقامات ، جنت البقیع ،اصحاب رض اور اہلبیت اطہارؑ محمد و آل محمدؑ سے بغض کی وجہ سے خاندانِ رسالت کے آثار کو صفحۂ ہستی سے محو کر دینے کا عزم کیا اس سلسلے میں انہوں نے مدینہ کے علماء سے فتوے وغیرہ لئے تاکہ تخریب کی راہ ہموار ہو جائے ۔ اور اہل حجاز کو جو کہ اس کام کے لئے تیار نہ تھے ، بھی اپنے ساتھ ملایا جائے ۔اسی بناء پر نجد کے قاضی القضات ، ''سلیمان بن بلیہد '' کو مدینہ روانہ کیا تاکہ وہ ان کے من پسند فتوے ،علمائے مدینہ سے حاصل کرے ،اس نے ان سوالات کو اس طرح توڑ موڑ کر پوچھا کہ ان کا جواب بھی وہابیوں کے نظریئے کے مطابق انہی سوالات میں موجود تھا ۔ اس طرح مفتیوں کو یہ سمجھادیا گیا کہ ان سوالات کے وہی جوابات دیں جو خود سوالات کے اندر موجود ہیں ورنہ انہیں بھی مشرک قرار دے دیا جائے گا ۔اور توبہ نہ کرنے کی صورت میں انہیں قتل کر دیا جائے گا ۔ سوالات اور جوابات مکہ سے شائع ہونے والے رسالہ (ام القریٰ ) ماہ شوال ١٣٤٤ھ میں منتشر ہوئے ۔ وہابی ١٥ ربیع الاول ١٣٤٣ھ کو حجاز پر قابض ہوئے اور آٹھویں شوال ١٣٤٣ ھ بمطابق اپریل ۱۹۲۵ عیسوی کو جنت البقیع میں ائمہ کے مزاروں کی قبروں کو منہدم کر دیا ۔اس کے بعد شیعہ سنی تمام مسلمانوں میں ردّ عمل کی شدید لہڑ دوڑ گئی ۔کیونکہ سب کو پتہ تھا کہ مدینہ کے علماء سے فتویٰ حاصل کرنے کے بعد اگر چہ ڈرا دھمکا کر ہی کیوں نہ لیا گیا ہو ، ائمہؑ کی قبروں کا انہدام اور عمارتوں کی تخریب شروع ہو جائے گی اور ایسا ہی ہوا بھی ۔ مدینہ کے پندرہ علماء سے فتویٰ لینے اور اسے حجاز میں نشر کرنے کے بعد فوراً خاندان رسالتؑ کے آثار کو اسی سال آٹھویں شوال کو محو کرنا شروع کر دیا ۔ اہل بیت علیہم السلام اور اصحاب نبی (ص) کے آثار بطور کلی مٹا دیئے گئے ۔ جنت البقیع میں ائمہ علیہم السلام کے روضوں کی گراں بہا اشیاء لوٹ لی گئیں ۔ اور قبرستان بقیع ایک کھنڈر اور ویرانے کی صورت اختیار کر گیا کہ جسے دیکھ کر انسان لرز جاتا ہے ۔ وہابی اور آل سعود اسی سال روضئہ رسول ص اور گنبد حضرا کو بھی منہدم کرکے زمیں بوس کرنا چاہتے تھے لیکن جب پوری دنیا میں مسلمانوں کا رد عمل دیکھا تو اپنے آقا بوڑھے استعمار برطانیہ کے مشورے اور اس ڈر سے کہ کہیں پورا عالم اسلام وہابیت اور آل سعود کو قادیانیوں کی طرح غیر مسلم نہ قرار دیں ،روضئہ رسول ص کو منہدم تو نہ کیا لیکن آج تک وہابیت اور آل سعود کے نمک خوار سپاہی روضہ رسول ص کی طرف عقیدت اور زیارات کی خاطر آنے والے دنیا بھر کے سنی شیعہ مسلمانوں کو زیارات رسول ص سے روکتی رہی ہے، اور گنبد حضری کو صاف کرنے کی بجائے اس پر گرد و غبار کی گہری تہہ جمع ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ وہابیت دل ہی دل میں آثار نبوی ص کے باقی رہنے پر غصہ اتار رہی ہے۔ الف۔ قبروں کی تعمیر کے سلسلے میں اس موضوع کے حکم کو قرآن کے عام اصولوں سے اخذ کر سکتے ہیں ۔ ١۔ اولیاء خدا کی قبروں کی تعمیر اور حفاظت شعائر اللہ کی تعظیم میں داخل ہے ۔ قرآن کریم شعائر اللہ کی تعظیم کو قلوب کی پرہیزگاری اور دلوں پر تقوائے الٰہی کے غلبہ کی علامت و نشانی جانتا ہے ۔ارشاد ہوتا ہے : '' ذَلِكَ وَمَنْ يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوبِ '' (سورۂ حج ٣٢) جو شخص شائراللہ کی تعظیم کرتا ہے تو یہ تقوائے قلوب کی علامت ہے۔ شعائر اللہ کی تعظیم کا اصل مقصد کیا ہے ؟شعائر ''شعیرہ '' کی جمع ہے ،جس کے معنی علامت و نشانی ہیں آیت کا مطلب وجود خدا کی نشانیاں بیان کرنا نہیں کیونکہ تمام موجودات عالم اس کے وجود کی نشانیاں ہیں ۔ اور کسی نے یہ نہیں کہا کہ جو کچھ اس گلزار ہست و بود میں ہے ان سب کی تعظیم تقویٰ کی علامت ہے۔ بلکہ اس سے مراد اس کے دین کی نشانیاں ہیں ۔اسی بناء پر تو مفسرین اس آیت کی یوں تفسیر کرتے ہیں ۔ ''معالم دین اللہ '' خدا کے دین کی نشانیاں ۔(مجمع البیان ،ج٤،ص ٨٢) اگر قرآن نے صفاومروہ کے اور اس اونٹ کو جو منیٰ میں قربانی کے لئے لے جایا جاتا ہے ،شعائر اللہ میں شمار کیا ہے تو اس کا سبب یہ ہے کہ یہ آئین ابراہیمؑ اور دین حنیف کی نشانیاں اور علامتیں ہیں ۔ اگر ''مزدلفہ '' کو ''مشعر '' کہتے ہیں تو اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ وہ دین الٰہی کی نشانی ہے وہاں پر ٹھہرنا ،دین پر عمل اور خدا کی اطاعت کی علامت ہے ۔ اگر تمام مناسک حج کو شعائر اللہ کے نام سے موسوم کرتے ہیں تو وہ بھی اسی لئے ہے کہ یہ اعمال دین حنیف اور دین توحید کی علامتیں اور نشانیاں ہیں ۔ مختصر یہ کہ جو چیز بھی دین الٰہی کی نشانی قرار پائے اس کی تعظیم و تکریم خدا کی بارگاہ میں تقرب و خوشنودی کا باعث بنتی ہے ۔ اور یہ ایک امر مسلم ہے کہ انبیاء و اولیاء خدا ، دین الٰہی کی روشن ترین دلیلیں اور بزرگترین نشانیاں ہیں ، جن کی بدولت دنیا میں دین کا پرچم بلند ہوا ۔ اور دین کا بول بالا ہوا ۔کوئی بھی منصف شخص ہر گز اس سے انکار نہیں کرسکتا کہ پیغمبر اسلام (ص) اور ائمہ طاہرین (ع) کا وجود اسلام کی دلیل اور اس کی علامت ہے ۔ اور ان کی تعظیم کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ان کے آثار و قبور کی حفاظت کی جائے اور انہیں انہدام و نابودی سے بچایا جائے ۔ حسب ذیل دو چیزوں کو مدّ نظر رکھنے سے قبور اولیاء کی تعظیم و تکریم کا مسئلہ واضح ہو جاتا ہے ۔ الف۔ اولیاء خدا اور بالخصوص وہ لوگ جنہوں نے دین اسلام کی سر بلندی کے لئے قربانی پیش کی ہو وہ بلا شبہ شعائر اللہ اور دین خدا کی نشانیاں ہیں ۔ ب۔ تعظیم کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ان بزرگوں کی وصال کے بعد ان کے آثار و مکتب کی نگہداشت کے ساتھ ساتھ ان کی قبور کی تعمیر ،نگہبانی اور حفاظت کی جائے ۔ اسی لئے تمام قوموں کی عظیم سیاسی اور دینی شخصیتوں کی قبریں جو ان کے مکتب فکر کی علامت ہوتی ہیں ایسی جگہوں پر بنائی جاتی ہیں جہاں وہ ہمیشہ محفوظ رہیں ۔ اور ان کے مکتب کی یاد تازہ رہے ۔گویا ان کی قبروں کو خرابی سے محفوظ رکھنا ایسے ہی ہے جیسے ان کے وجود اور ان کے مکتب کی حفاظت ہے ۔ اور ان کے آثار کو زندہ رکھنے کی علامت ہے ۔ اس حقیقت کے ادراک کے لئے ضروری ہے کہ سورۂ حج کی چھتیسویں آیت کو پوری توجہ سے تفسیر کریں ۔ بیت اللہ الحرام کے بعض زائرین گھر سے ہی اپنے ساتھ اونٹ کو قربانی کے لئے مکہ لاتے ہیں اور اس کی گردن میں پٹہ ڈال کر فی سبیل اللہ قربانی کے لئے مختص کر دیتے ہیں ۔اور اسے باقی اونٹوں سے علیحدہ رکھتے ہیں ۔کیونکہ یہ اونٹ ایک طرح سے خدا سے وابستہ ہو گیا ہے ۔ اور خود خدا نے اسے شعائر اللہ میں سے شمار کیا ہے لہذا سورہ حج کی بتیسویں آیت کے مطابق '' و من یعظم شعائر اللہ '' کے مطابق اسے مورد احترام قرار دینا چاہئے مثال کے طور پر یہ لوگ اس پر سوار نہ ہوں اور وقت پر اسے پانی ، گھاس وغیرہ ڈالنا چاہئے یہاں تک کہ اس مخصوص مقام پر اسے ذبح کر دیا جائے ۔ جب ایک اونٹ منیٰ کی سر زمین پر قربانی کے لئے مخصوص ہونے کی وجہ سے شعائر اللہ میں داخل ہو جاتا ہے اور اس کے لئے مناسب تعظیم ضروری ہوتی ہے تو کیا پیغمبرص ،علماء ،شہداء اور مجاہدین شعائر اللہ میں سے نہیں ہیں ؟ جنہوں نے زندگی کے ابتدائی ایام ہی میں اپنا سب کچھ خدا کی راہ میں وقف کر دیا اور اس کی خوشنودی کے لئے دین اسلام کی ایسی خدمت انجام دی کہ خود خدا اورخلق کے مابین وسیلہ قرار پائے اور در حقیقت بشریت نے دین خدا کو انہی کے طفیل میں پہنچانا ہے ۔ کیا ان کے مقام و منزلت کے لحاظ سے ان کی حیات و ممات میں ان کی تعظیم و تکریم نہ کی جائے ؟ اگر کعبہ ، صفا و مروہ ، منیٰ وعرفات جو مٹی اور پتھر کے سوا کچھ نہیں ہیں ۔دین خدا سے ارتباط کی وجہ سے شعائر اللہ میں داخل ہیں ۔ اور ہر ایک کی اپنے موقع و محل کے اعتبار سے تعظیم و تکریم ضروری ہے تو بھلا اولیاء خدا جو دین الٰہی کے مبلغ ومحافظ ہیں وہ شعائر اللہ میں سے کیوں نہ ہوں ، اور ان کی تعظیم و تکریم کیوں نہ کی جائے ؟ ہم یہاں پر خود وہابیوں کے ضمیر کو قاضی و منصف قرار دیتے ہیں ۔کیا انبیاء کے شعائر اللہ میں ہونے کے سلسلہ میں کسی قسم کا شک و تردد ہے ؟ یا ان کے آثار اور ان سے مربوط اشیاء کی حفاظت کو ان کی تعظیم نہیں سمجھتے ۔ ان کی قبروں کی تعمیر اور صفائی کا خیال رکھنا تعظیم و تکریم ہے یا ان کی قبروں کو مسمار کر دنیا تعظیم ہے ؟ ٢۔ قرآن کریم واضح الفاظ میں ہمیں حکم دیتا ہے کہ پیغمبر گرامی (ص) کے اقربا سے محبت رکھو ۔ ارشاد قدرت ہوتا ہے : ''قُلْ لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى'' (سورۂ شوریٰ ٢٣) اے رسول کہہ دیجئے میں تم سے اجر رسالت نہیں مانگتا مگر یہ کہ میرے اقربا سے مودت رکھو ۔ کیا اہل دنیا کی نگاہ میں ، جن سے یہ آیت مخاطب ہے ، خاندان رسالت سے محبت و مودت کا ایک طریقہ ان کی قبروں کی تعمیر نہیں ہے ؟حالانکہ دنیا کی تمام ملتوں میں یہ رسم پائی جاتی ہے اور سب لوگ قبروں کی تعمیر کو صاحب قبر سے اظہار عقیدت کی علامت قرار دیتے ہیں ۔اسی لئے تو عظیم سیاسی و علمی شخصیات کو کلیسا ، یا معروف مقبروں میں سپرد خاک کرتے ہیں ۔ اور ان کی قبروں کے اردگرد درخت لگاتے ہیں ۔ اور پھولوں کی چادریں چڑھاکر اپنی محبت اور عقیدت کا اظہار کرتے ہیں ۔ لیکن وہابیت کا اصل مسئلہ بغض و عدوات محمد و آل محمد ص بالخصوص خاتون جنت سیدہ النسا العالمینؑ حضرت بی بی فاطمتہ الزھرا سلام اللہ علیہا سے بغض کی انتہا ہے اس حوالے سے عالمی سنی تحریک نے وہابیت کے فتنے کو عیاں کرنے کے لئے ایک ویب سائٹ بنائی ہے جس میں وہابیت کے فتنے کی تشریح کرکے وہابییوں کو سنی ماننے سے انکار کیا ہے۔ ویب سائٹ یہاں قارئین کے استفادے کے لئے دی جا رہی ہے۔ www.najd2.wordpress.com اور یہ انتہا یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ نہ صرف اپریل 1925 میں وہابیوں آل سعود نے خاتون جنت فاطمتہ الزھرا سلام اللہ علیہ کا جنت البقیع میں روضہ منہدم کروایا بلکہ گذشتہ سال بھی خاتون جنت بی بی فاطمتہ الزھرا سلام اللہ علیہ سے منسو مسجد فاطمہ س کو مسمار کرکے آل سعود سے منسوب پارک میں تبدیل کر دیا گیا۔۔۔کیا حجاز مکہ و مدینہ کی سرزمین میں آل سعود کے ابا و اجداد اور مطلق العنان حکمرانوں کی آثار بنانا عین اسلام اورآل رسول ص کے آثار حتی کہ مساجد عین کفر و شرک ہے؟؟؟؟ اس سوال کا جواب ہر باضمیر انسان اور مسلمان کو دینا ہوگا۔۔وگرنہ اسلام کے یہ نام نہاد ٹھیکدار قیامت کے دن رسول ص کو کیا جواب دیں گے، جب رسول ص نے تاکید سے یہ احادیث فرمائی تھی کہ۔۔فاطمہ س میرے جگر کا ٹکڑا ہے جس کسی نے اس فاطمہ س کو ناراض کیا اس نے مجھ رسول ص کو ناراض کیا اور جس نے رسول ص کو ناراض کیا اس نے اللہ کو ناراض کیا۔اسلئے یہ ہر مسلمان کا فرض ہے کہ اپنے علاوہ تمام مسلمانوں کو کافر کہہ کر آل سعود کے اس ظلم و جبر کے پالسی اور کفر کے فتوؤں کی فیکٹریوں جس کی وجہ سے پاکستانی معاشرہ دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکا ہے اور اسی تکفیری وہابی فکر و دہشت گردی کی وجہ سے مساجد و بازار تو کیا داتا دربار رحمان بابا و بری امام کے مزارات تک نشانے پر ہیں، اس کے خلاف اپنی آواز بلند کرنی چاہئے ورنہ یہ فتنہ پاکستانی معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ جائے گا اور پھر بات ۔۔۔اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چک گئی کھیت۔۔۔۔۔والی بات رہ جائے گی