Thursday, 7 August 2014

اسلام کی حقانیت کی دلیل


1932ء میں عراق کے قصبہ ”سلمان پاک“ میں ایک ایسا روح پرور واقعہ پیش آیا جو اسلام کی حقانیت اور ہمارے اسلاف کے ایمان کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ بغداد سے 30 میل دور قصبہ سلمان پاک کی ایک پُرشکوہ عمارت میں صحابی رسول سیّدنا سلمان فارسی (رضی اللہ تعالٰی عنہ) کا مزارِ مبارک ہے اور اب اِسی مزار کے گنبد سے مُتصل رحمۃ اللعالمین (صلّی اللہ علیہ وآلہِ و سلّم) کے دو جلیل القدر صحابہ (جن سے متعدد احادیث مروی ہیں) حضرت ”حذیفہ بن الیمان“ اور حضرت ”جابر بن عبداللہ بن عمرو بن حرام الانصاري“ (رضوان اللہ علیہم اجمعین) کی قبورِ پُرنور موجود ہیں۔ لیکن یہ قبور پہلے یہاں نہیں تھیں بلکہ سلمان پاک سے تقریباً تین یا چار فرلانگ کے فاصلے پر ایک غیر آباد جگہ پر موجود تھیں جہاں زیرِ زمین پانی کے سبب حضرت حذیفہ بن الیمان نے دو مرتبہ شاہِ عراق شاہ فیصل اوّل کے خواب میں آ کر اُس سے کہا کہ ”مجھے اور جابر کو یہاں سے منتقل کر دو کیونکہ دریائے دجلہ کا پانی قبر میں رِس رہا ہے۔ “ شاہِ عراق نے مسلسل دو راتوں تک یہی خواب دیکھا مگر سمجھ نہیں پایا۔ تیسری رات حضرت حذیفہ نے مفتی اعظمِ عراق نوری السعید پاشا کے خواب میں آ کر یہی بات دہرائی اور جب مفتی صاحب نے شاہِ عراق سے اس کا ذکر کیا تو اُس نے فوراً ہی اُن سے عرض کی کہ ”آپ مزارات سے اجسادِ مبارکہ منتقل کرنے کا فتویٰ جاری کر دیجیے، میں بلا کسی تردّد عمل کروں گا۔ “ فتویٰ اور شاہی فرمان عراق کے تمام اخبارات میں شائع ہوا اور خبر رساں اداروں نے اس تاریخی خبر کو پوری دنیا میں پھیلا دیا۔ مقررہ دن یعنی 24 ذی الحجہ، 25 اپریل، پیر کے دن 1932 عیسوی میں ہزاروں (یا شاید لاکھوں) انسانوں کی موجودگی میں یہ مزارات کھولے گئے تو معلوم ہوا کہ حضرت حذیفہ بن الیمان کی قبر مبارک میں پانی آ چکا تھا اور حضرت جابر بن عبداللہ کے مزار میں نمی پیدا ہو چکی تھی۔ تمام ممالک کے سُفراء اور عراق کے اراکینِ حکومت، مذہبی رہنماؤں اور شاہِ عراق کی موجودگی میں پہلے حضرت حذیفہ کے جسدِ مبارک کو کرین کے ذریعے زمین سے اس طرح اوپر اٹھایا گیا کہ مقدس نعش کرین کے ساتھ رکھے ہوئے سٹریچر پر خود بخود آ گئی اور پھر کرین سے سٹریچر کو علیحدہ کر کے شاہ فیصل، مفتی اعظمِ عراق، وزیر مختارِ جمہوریہ تُرکی اور ولی عہدِ مصر شہزادہ فاروق نے کاندھا دیا اور یہ جسدِ مقدس بڑے احترام سے شیشے کے تابوت میں رکھ دیا گیا۔ پھر اسی طرح حضرت جابر بن عبداللہ کے جسدِ مبارک کو قبر سے نکالا گیا۔ اس تمام کاروائی کو ویڈیو کیمروں کے ذریعے فلمایا گیا اور یہ روح پرور مناظر بعد ازاں عراق کے سینما گھروں میں دکھائے گئے۔ ان واقعات کو براہِ راست دیکھنے والوں میں مُسلم اور غیرمُسلم ہر طرح کے افراد شامل تھے۔ ان مناظر کو دیکھ کر ہزاروں غیرمُسلموں نے اسلام قبول کر لیا۔ حدیث لکھنے اور روایت کرنے والے اِن عظیم المرتبت صحابہِ کرام کے چہروں، کفن اور ریش مبارک دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ جیسے انہیں رحلت فرمائے 1400 برس نہیں بلکہ صرف چند گھنٹے ہی گزرے ہیں۔ سب سے حیرت انگیز بات یہ تھی کہ دونوں صحابہِ کرام کی آنکھیں کُھلی ہوئی تھیں اور اُن میں اتنی چمک تھی کہ بہتوں نے چاہا کہ اِن آنکھوں کو دیکھ لیں مگر دیکھنے والے کی آنکھیں ایسے چندھیا جاتیں کہ ہر شخص دُور ہٹ جاتا۔ اور یقیناً وہ دیکھ بھی کیسے سکتے تھے کہ اُن آنکھوں میں میرے سرکار (صلّی اللہ علیہ و آلہِ وسلم) کو دیکھ اور اُن کی شبیہ کو محفوظ کر رکھا تھا۔ جب سینکڑوں برس بعد صحابہ کرام کے جسد خاکی قبور سے تروتازہ نکل آئے۔ 1932 میں شاہ عراق ملک فیصل اول کو خواب میں حضرت حذیفہ الیمانی رضی اللہ عنہ ، جلیل القدر صحابی نے فرمایا حضرت جابر بن عبداللہ اور مجھے موجودہ مزارات سے منتقل کرکے دریائے دجلہ سے کچھ فاصلے پر دفن کردو کیونکہ میرے مزار میں پانی اور حضرت جابر کے مزار میں نمی ہے۔ شاہ فیصل نے یہ خواب مسلسل دیکھا ،لیکن بوجہ مصروفیت امورِ مملکت کوئی خاص توجہ نہ دی ۔ تیسری شب حضرت موصوف نے مفتی اعظم عراق کو ہدایت فرمائی، ہم شاہ عراق سے دو مرتبہ کہہ چکے ہیں ہمارے مزارات یہاں سے منتقل کردو لیکن شاہ نے توجہ نہ دی، تم شاہ کو تاکید کردو وہ منتقلی مزارات کا انتظام کردے۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ ہجرت سے پندرہ سال پہلے مدنیہ میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق قبیلہ خزرج کے ایک غریب خاندان سے تھا۔ آپ کم عمری میں اسلام لائے اور بے شمار غزوات میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ساتھ دیا۔ والد کا نام عبداللہ اور والدہ کا نام نصیبہ بنت عقبہ بنت عدی تھا جو ان کے والد کے خاندان ہی سے تھیں۔ آپ کے والد حضرت عبداللہ انصاری غزوہ احد میں شہید ہوئے۔ ان کی نسل کو بنو حرام کہا جاتا ہے جو آج بھی مسجد قبلتین کے قریب رہائش رکھتے ہیں۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سات بہنوں کے اکلوتے بھائی تھے۔ بعض روایات کے مطابق ایک دفعہ وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر تھے تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اے جابر تم ایک لمبی زندگی پاؤ گے اگرچہ اندھے ہو جاؤ گے مگر تمہاری ملاقات میری اولاد میں سے ایک شخص سے ہوگی وہ میرا ہم نام ہوگا. انہوں نے چورانوے سال کی عمر پائی اور 78ھ میں وفات پائی۔ روایات کے مطابق انہیں حجاج بن یوسف نے زہر دلوایا تھا۔ انہیں بغداد کے قریب مدائن میں دریائے دجلہ کے قریب دفن کیا گیا۔ بہر حالصبح کو مفتی اعظم نوری السعید وزیراعظم عراق کے پاس تشریف گئے اور خواب بیان کیا۔ وزیراعظم مرحوم اور مفتی اعظم عراق دونوں شاہ کی خدمت میں باریاب ہوئے اور درخواست بیان کی ۔ شاہ نے بھی اس خواب کی تائید کی۔ باہمی مشورہ اور غور و فکر کے بعد طے پایا کہ مفتی اعظم مزارات کی منتقلی کا فتوی دیں اور فتوے کے ساتھ شاہی فرمان منسلک کرکے اخبارات میں اشاعت کے لیے وزیراعظم کو دے دیں۔ چناچہ اس پر فورا عمل کیا ۔اعلان تھا دس ذوالحجہ کے بعد نماز ظہر دونوں اصحاب رسول رضی اللہ عنھم کے مزارات کھول کر دونوں حضرات کو کسی مناسب جگہ دفن کیا جائے گا۔ اس اعلان کی اشاعت کے بعد تمام عالم اسلامی میں یہ خبر نہایت دلچسپی کے ساتھ پڑھی گئی۔ چونکہ حج کا زمانہ قریب تھا دنیا کے مسلمان حرمین الشریفین میں جمع تھے۔ سب نے بذریعہ تار شاہ عراق سے درخواست کی کہ مزارات ، حج کے بعد کسی قریبی تاریخ میں منتقل کیے جائیں تاکہ ہم بھی شرکت کی سعادت حاصل کرسکیں۔ اسی طرح اطرافِ عالم ہندوستان ، ترکی ، مصر ، افریقہ ، ایران ، شام اور بلغاریہ وغیرہ سے تاروں کی یلغار شروع ہوگئی اور تاریخ میں توسیع کی درخواست کی گئی۔ مسلمانانِ عالم کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے دوسرا شاہی فرمان جاری کیا گیا کہ اب یہ مبارک کام حج کے دس یوم کے بعد کیا جائے گا۔بغداد سےتقریبا 40 میل دور ایک تاریخی مقام مدائن ہے جس کو اب سلمان پاک کہتے ہیں۔ یہاں مشہور صحابی حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کا مزار بھی ہے۔اطرافِ عالم سے مسلمانان اور غیرمسلم کثیر تعداد میں بغداد پہنچ گئے۔ تمام دنیا کے اخباری نمائندے ، فوٹوگرافر ، سفیر اور مشہور سیاح، مورخ، شاہ عراق اور وزیراعظم ، مفتی اعظم ، امراء ، صلحاء اور عمائدینِ عراق دوشنبہ کو دوپہر کے وقت یہاں جمع ہوچکے تھے۔ پہلے حضرت حذیفہ الیمانی رضی اللہ عنہ کے جسدِ مبارک کو کرین کے ذریعے زمین سے اس طرح اٹھایا گیا کہ کرین پر لگے اسٹریچر پر جسدِ مبارک خودبخود آگیا۔ اس کے بعد کرین سے اسٹریچر الگ کرکے شاہ فیصل ، مفتی اعظم ، وزراء ترکی ، ولی عہد مصر شہزادہ فاروق نے کاندھوں پر اسٹریچر رکھ کر تابوت تک لائے جو شیشہ کا بنا ہوا پہلے سے تیار تھا۔ تابوت میں جسد مبارک رکھ دیا گیا۔ اسی طرح حضرت جابر بن عبداللہ کے جسدِ مبارک کو بھی مزار سے نکال کر باالاحترام بلوری تابوت میں رکھ دیا گیا۔ دونوں حضرات کے جسم بالکل تروتازہ تھے، ایسا معلوم ہوتا تھا یہ حضرات ابھی زندہ ہیں۔ آنکھیں کھلی ہوئی تھیں جن سے نوری شعاعیں نکل کر دیکھنے والوں کی آنکھیں خیرہ کررہی تھیں۔ کفن بھی بالکل تازہ تھے۔ یہ کرشمہ قدرت دیکھ کر بڑے بڑے ڈاکٹر ، سائنس دان ، انگشت بدنداں تھے۔ بین الاقوامی شہرت کا مالک ایک جرمن ماہر چشم اس کاروائی میں بڑی دلچسپی لے رہا تھا ، وہ اس قدر متاثر ہوا کہ فورا مفتی اعظم عراق کے پاس آیا اور ہاتھ پکڑ کر کہا، اسلام کی حقانیت کا اس سے بڑھ کر کیا ثبوت ہوسکتا ہے۔ میں کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوتا ہوں آپ مجھے تلقین کریں۔ لاکھوں انسانوں کے سامنے یہ ڈاکٹر مسلمان ہوگیا۔ اس کے بعد ہزاروں نصرانیوں ، یہودیوں نے جوق در جوق بغداد آکر مع اپنے خاندانی افراد اسلام قبول کیا...

No comments:

Post a Comment